رکھا جارہا ہے تو اسمبلی کے ممبر اس اعتماد اورکھلے دل سے اپنے خیالات کااظہار نہ کر سکتے جیسا کہ انہوں نے خفیہ اجلاسوں میں کیا۔ ہمیں ان خفیہ اجلاسوں کی کاررروائی کا کافی عرصہ تک احترام کرنا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کوئی بات بھی خفیہ نہیں رہتی۔لیکن ان باتوں کے اظہار کا ایک موزوں وقت ہے۔چونکہ اسمبلی کی کارروائی خفیہ رہی ہے اورہم نے اسمبلی کے ہر ممبر کو،اوران کے ساتھ ان لوگوں کو بھی جو ہمارے سامنے پیش ہوئے یہ یقین دلایاتھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں۔اس کا سیاسی یاکسی اورمقصد کے لئے استعمال نہیں کیاجائے گا اورنہ ان کے بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے گا۔
میرے خیال میں یہ ایوان کے لئے ضروری اورمناسب ہے کہ وہ ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو ایک خاص وقت تک ظاہر نہ کریں۔وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے لئے ممکن ہو گا کہ ہم ان خفیہ اجلاسوں کی کارروائی کو آشکار کردیں۔کیونکہ اس کے ریکارڈ کا ظاہر ہونا بھی ضروری ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ ان خفیہ اجلاسوں کے ریکارڈ کو دفن ہی کردیا جائے۔ہرگز نہیں۔اگر میں یہ کہوں تو یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔میں فقط یہ کہتاہوں کہ اگر اس مسئلے کے باب کو ختم کرنے کے لئے، اورایک نیاباب کھولنے کے لئے، نئی بلندیوں تک پہنچنے کے لئے، آگے بڑھنے کے لئے، اور قومی مفاد کو محفوظ رکھنے کے لئے، اور پاکستان کے حالات کو معمول پررکھنے کے لئے اس مسئلے کی بابت ہی نہیں بلکہ دوسرے مسائل کی بابت بھی،ہمیں ان امور کو خفیہ رکھناہوگا۔ میںایوان پر یہ بات عیاں کردیناچاہتا ہوں کہ اس مسئلے کے حل کو ،دوسرے کئی مسائل پر تبادلہ خیال اوربات چیت اورمفاہمت کے لئے نیک شگون سمجھنا چاہئے۔ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ یہ حل ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے اوراب ہم آگے بڑھیں گے اورتمام نئے قومی مسائل کو مفاہمت اور سمجھوتے کے جذبے کے تحت طے کریںگے۔
جناب سپیکر!میںاس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔اس معاملے کے بارے میں میرے جو احساسات تھے۔میں انہیں بیان کرچکاہوں۔میں ایک بار پھر دہراتاہوں کہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔یہ ایک فیصلہ ہے جو ہمارے عقائد سے متعلق ہے اور یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے اورپوری قوم کا فیصلہ ہے۔یہ فیصلہ عوامی خواہشات کے مطابق ہے۔میرے خیال میں یہ انسانی طاقت سے باہر تھا کہ یہ ایوان اس سے بہتر کچھ فیصلہ کرسکتا اور میرے خیال میں یہ بھی ممکن