کردیا ہے۔یہ میری کامیابی نہیں،یہ حکومت کی بھی کامیابی نہیں،یہ کامیابی پاکستان کے عوام کی کامیابی ہے۔جس میں ہم بھی شریک ہیں۔میں سارے ایوان کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔مجھے احساس ہے کہ یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہ کیاجاسکتااگر تمام ایوان کی جانب سے اوراس میں تمام پارٹیوں کی جانب سے تعاون اورمفاہمت کاجذبہ نہ ہوتا۔آئین سازی کے موقع کے وقت بھی ہم میں تعاون اور سمجھوتے کا یہ جذبہ موجود تھا۔آئین ہمارے ملک کا بنیادی قانون ہے۔اس آئین کے بنانے میں ستائیس برس صرف ہوئے اوروہ وقت پاکستان کی تاریخ میں تاریخی اور یادگار وقت تھا جب اس آئین کو تمام پارٹیوں نے قبول کیا اورپاکستان کی قومی اسمبلی نے اسے متفقہ طورپر منظور کرلیا۔ اسی جذبے کے تحت ہم نے یہ مشکل فیصلہ بھی کرلیاہے۔
جناب سپیکر!کیامعلوم کہ مستقبل میں ہمیں زیادہ مشکل مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن میری ناچیز رائے میں جب سے پاکستان وجود میں آیا ،یہ مسئلہ سب سے زیادہ مشکل مسئلہ تھا۔ کل کو اس سے زیادہ پیچیدہ اورمشکل مسائل ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔جن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کے تاریخی پہلوؤں پراچھی طرح غور کرتے ہوئے میں پھرکہوں گا کہ سب سے زیادہ مشکل مسئلہ یہ تھا۔گھر گھر میں اس کااثرتھا۔ہر دیہات میں اس کااثرتھا اور ہرفرد پراس کااثرتھا۔یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتاچلاگیا اوروقت کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک شکل اختیارکرگیا۔ہمیں اس مسئلے کو حل کرناہی تھا۔ہمیں تلخ حقائق کا سامناکرنا ہی تھا۔ ہم اس مسئلے کو ہائی کورٹ یا اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کرسکتے تھے یا اسے اسلامی سیکرٹریٹ کے سامنے پیش کیاجاسکتاتھا۔ظاہر ہے کہ حکومت اورحتیٰ کہ افراد بھی مسائل کو ٹالنا جانتے ہیں اورانہیں جوں کا توں رکھ سکتے ہیں اورحاضرہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے معمولی اقدامات کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے اس مسئلے کو ا س انداز سے نمٹانے کی کوشش نہیں کی۔ہم اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کاجذبہ رکھتے تھے۔اس جذبے کے تحت قومی اسمبلی ایک کمیٹی کی صورت میں خفیہ اجلاس کرتی رہی۔خفیہ اجلاس کرنے کے لئے قومی اسمبلی کے پاس کئی ایک وجوہات تھیں۔ اگر قومی اسمبلی خفیہ اجلاس نہ کرتی توجناب!کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سچی باتیں اور حقائق ہمارے سامنے آسکتے؟ اور لوگ اس طرح آزادی اوربغیر جھجھک کے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے۔اگر ان کو معلوم ہوتا کہ یہاں اخبارات کے نمائندے بیٹھے ہیں اورلوگوں تک ان کی باتیں پہنچ رہی ہیں اوران کی تقاریر اوربیانات کو اخبارات کے ذریعے شائع کر کے ان کاریکارڈ