وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر
جناب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان کی اس تقریر کا متن ،جوانہوںنے قومی اسمبلی میں ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کو کی تھی۔
جناب سپیکر! میں جب یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ پورے ایوان کا فیصلہ ہے تو اس سے میرامقصد یہ نہیں کہ میں کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے اس بات پر زور دے رہا ہوں۔ ہم نے اس مسئلے پر ایوان کے تمام ممبروں سے تفصیلی طور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ جن میں تمام پارٹیوں کے اور ہر طبقہ خیال کے نمائندے موجود تھے۔آج کے روز جو فیصلہ ہواہے۔یہ ایک قومی فیصلہ ہے۔یہ پاکستان کے عوام کافیصلہ ہے۔یہ فیصلہ پاکستان کے مسلمانوں کے ارادے، خواہشات اوران کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔میں نہیں چاہتا کہ فقط حکومت ہی اس فیصلے کی تحسین کی مستحق قرار پائے اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی ایک فرد اس فیصلے کی تعریف وتحسین کا حق دار بنے۔ میرا کہنا ہے کہ یہ مشکل فیصلہ، بلکہ میری ناچیز رائے میں کئی پہلوؤں سے بہت ہی مشکل فیصلہ،جمہوری اداروں اور جمہوری حکومت کے بغیر نہیں کیا جاسکتاتھا۔
یہ ایک پرانا مسئلہ ہے۔نوے سال پرانا مسئلہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔اس سے ہمارے معاشرے میںتلخیاں اورتفرقے پیدا ہوئے۔لیکن آج کے دن تک اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ ماضی میں بھی پیدا ہواتھا۔ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔ہمیں بتایا گیا کہ ماضی میں اس مسئلے پر جس طرح قابو پایا گیا تھا۔اسی طرح اب کی بار بھی ویسے ہی اقدامات سے اس پر قابو پایاجاسکتا ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اس سے پہلے کیا کچھ کیاگیا۔لیکن مجھے معلوم ہے کہ ۱۹۵۳ء میں کیا، کیاتھا۔۱۹۵۳ء میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے وحشیانہ طور پر طاقت کااستعمال کیاگیا تھا۔ جو اس مسئلے کے حل کے لئے نہیں۔بلکہ اس مسئلے کو دبادینے کے لئے تھا۔کسی مسئلے کو دبا دینے سے اس کا حل نہیں نکلتا۔اگر کچھ صاحبان عقل وفہم حکومت کو یہ مشورہ دیتے کہ عوام پر تشدد کرکے اس مسئلے کو حل کیاجائے اورعوام کے جذبات اوران کی خواہشات کو کچل دیاجائے،تو شاید اس صورت میں ایک عارضی حل نکل آتا۔لیکن یہ مسئلے کاصحیح اوردرست حل نہ ہوتا۔مسئلہ دب تو جاتا اورپس منظر میں چلاجاتا۔لیکن یہ مسئلہ ختم نہ ہوتا۔