فضل الدین صاحب!قادیان سے آپ کے تین سو والنٹیئر اورسیالکوٹ سے دو سو والنٹیئر لاہور پہنچے۔آپ کے قائداعظم آل انڈیا نیشنل لیگ کورز چودھری اسد اﷲ خان برادر ظفر اﷲ خان قادیانی اورصدر آل انڈیا نیشنل لیگ شیخ بشیراحمد قادیانی بہ نفس نفیس پلیٹ فارم پر موجود تھے اور ان دونوں نے نہرو کے گلے میں پھولوں کے ہارڈالے۔حسب ذیل ماٹو جھنڈیوں پر خوبصورتی سے آویزاں تھے:
(1)(I beloved of the nation welcome you)
(2)(We join in civilliberties union)
(3)(Long live Jawaherlal)
پنڈت نہرو کا شاہانہ استقبال اوروہ بھی ۱۹۳۶ء میں اس کے بعد پاکستان کو قبول نہ کرنے کیلئے الہامی عقیدہ بھی گھڑ لیا۔گاندھی جی سے خواب میں بھی راز ونیاز کی باتیں اورپھر بھی دعویٰ مسلمانی۔اسے کہتے ہیں :’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔‘‘
فضل الدین مرزائی اپنے منہ سے وہ نقاب اتار دے جسے دنیا منافقت کا نقاب کہتی ہے تو پاکستان کی جنگ کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتا ہے لیکن کیا تو یہ بھول گیا کہ تیرے گرو گھنٹال مرزا محمود نے باؤنڈری کمیشن کی بارگاہ میں اپنا میمورنڈم پیش کیا کہ قادیان ایک یونٹ بن چکا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہماری ایک الگ ریاست ہونی چاہئے ۔کچھ پنڈت نہرو کو پرانی رشتہ داری یاد دلاکر کہا:
مجھ کو دنیا میں ملے گی نہ کہیں جائے پناہ
کچھ تو سوچ اے مجھے محفل سے اٹھانے والے
انگریز کو ظل اﷲ تیرے نبی نے کہا۔ ہندو سے رشتہ تیرے خلیفہ نے جوڑا لیکن جب دجل ونفاق کا کوئی حربہ کارگر نہ ہوا تو نام نہاد فضل عمر یعنی خلیفۃ المسیح اوراس کی تمام خانہ ساز امت مردود ومطرود ہو کر سرزمین پاک میں پناہ گزیں ہوئی۔مگر انتقام قدرت کی قہر نمائی ملاحظہ ہو یہاں آکر قادیانی امت نے یہ مرثیہ خوانی شروع کر دی:
وہ دن جب کہ تھے ہم مکیں قادیاں میں
ہماری تھی دنیا ہمارا زمانہ
مگر اب یہ حالت ہوئی جارہی ہے
کہیں بھی نہیں ہمارا ٹھکانہ
(الفضل ۲۲؍مئی ۱۹۴۸ئ)
اب حصول قادیان کے پیش نظر اکھنڈ بھارت کا الہام گھڑمارا: