نقصان پہنچانے کی اجازت دے۔پاکستان بن چکا ہے۔اب اس کی حفاظت ہمارا جزو ایمان ہے۔ تم میری رائے کو خود فروشی کا نام دو۔ میری رائے ہار گئی۔اس کہانی کو یہیں ختم کر دو اب پاکستان نے جب بھی پکارو اﷲ باﷲ اس کے ذرہ ذرہ کی حفاظت کروں گا۔مجھے یہ اتنا ہی عزیز ہے جتنا کوئی اور دعویٰ کر سکتا ہے۔میں قول کا نہیں عمل کا آدمی ہوں۔اس طرف کسی نے آنکھ اٹھائی تو وہ پھوڑ دی جائے گی۔کسی نے ہاتھ اٹھایا تو وہ کاٹ دیا جائے گا۔میں اس وطن اورعزت کے مقابلہ میں نہ اپنی جان عزیز سمجھتاہوں اور نہ اولاد۔میرا خون پہلے بھی تمہاراتھااوراب بھی تمہارا ہے۔‘‘
قادیانیوں کے پاکستان کے متعلق کیا نظریات تھے۔وہ بھی تاریخ کے سینہ میں محفوظ ہیں۔
۱… ’’جب تقسیم ملک سے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا دھندلا سا امکان افق پر نظر آنے لگا تو قادیانی آنے والے واقعات کے متعلق متفکر ہونے لگے۔۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء کے آغاز تک ان کی بعض تؑحریروں سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ انہیں پہلے انگریزوں کا جانشین بننے کی توقع تھی۔ لیکن جب پاکستان کا دھندلا سا خواب مستقبل کی ایک حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگا تو ان کو یہ امر کسی قدر دشوا ر معلوم ہوا کہ ایک نئی مملکت کو گوارا کر لیں۔ ان کی بعض تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تقسیم کے مخالف تھے اورکہتے تھے کہ اگر ملک تقسیم ہوگیا تو وہ اسے دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘ (انکوائری رپورٹ ص۲۰۹)
قارئین کرام غور کرنا!انکوائری رپورٹ کی مذکورہ عبارت کو مرزا محمود احمد کا یہ رویا ء صادق سچ ثابت ہورہا ہے:’’ابتداء میں حضور نے اپنا ایک رویأ بیان فرمایا جس میں ذکر تھا کہ گاندھی جی آئے ہیں اورحضور کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر لیٹنا چاہتا ہے اورذرا سی دیر لیٹنے پر اٹھ بیٹھے اورگفتگو شروع کردی۔اس رویأ کی تعبیر میں حضور نے فرمایا کہ ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو۔(اسی لئے جماعت احمدیہ کا الہامی عقیدہ ہے کہ پاکستان کا وجود عارضی ہے)اورکچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں۔مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد دور ہو جائے۔بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں شیروشکر ہوکر رہیں۔‘‘
(مرتبہ منیر احمد ،وینس احمد،الفضل ۱۵؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
فضل الدین مرزائی ۱۹۲۷ء کا حوالہ دے کر عوام کو گمراہ کررہا ہے۔اگر قادیانی جماعت حقیقتاً مسلم لیگ کے ساتھ تھی تو ۱۹۳۶ء میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر پنڈت نہرو کا شاہانہ استقبال کرکے اسے فخر وطن کاخطاب کیو ں دیا؟اوراس کی مکمل تفصیل الفضل ۱۳؍مئی ۱۹۳۶ء میں شائع کی گئی۔اس کی سرخی کا عنوان تھا’’فخر وطن پنڈت جواہرلال نہرو کالاہور میں شاندار استقبال‘‘