چراغ جلیں۔ وادی سیناء میرے بھائیوں کی لاشوں سے پٹ جائے اور تیری اسرائیل سے سفارت چلے شہدائے کشمیر سے تیرا کیا رشتہ؟
ایں چہ بوالعجبی است؟
۳… ۱۹۵۲ء کے فسادات پر عبدالماجد دریا آبادی اورمدیر اخبار تنظیم کے نام سے عبارت لکھی ہے کیا یہ ہر دو حضرات قادیانی ہو چکے ہیں۔آپ کی دعوت کو سچا تسلیم کرتے ہیں۔ اگر نہیں تو آپ کا یہ اعتراض بالکل لغوراوربے ہودگی ہے۔
۴… فضل الدین مرزائی صاحب!عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے یا عیسیٰ علیہ السلام آگئے۔ ہم مرزا غلا م احمدقادیانی کو نہ مہدی مانتے ہیں نہ عیسیٰ مانتے ہیں اور نہ ہی نبی مانتے ہیں۔ بلکہ ان تیس دجالوں اور کذابوں میں ایک مانتے ہیں جن کی خبر میرے محمدعربیﷺ نے اپنی امت کو دی تھی۔
پس بات ختم ہوگئی۔ کیونکہ اس میں نبیوں والی ایک بھی صفت نہیں۔کذابوں والی سینکڑوں صفات ہیں۔ (۱)محی الدین ابن عربیؒ۔(۲)شاہ ولی اﷲ دہلویؒ۔(۳) حضر ت مولانا رومؒ۔(۴)امام عبدالوہاب شعرانیؒ۔(۵)حضرت امام محمدطاہرؒ۔(۶)امام ربانی مجدد الف ثانیؒ۔ (۷)سید عبدالکریمؒ۔(۸)نواب صدیق حسنؒ۔(۹)حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ۔ (۱۰) ملا علی قاریؒ کا نام لے کر کہتے ہیں کہ یہ سب حضرات امکان نبوت کے قائل ہیں۔ جی ہاں! ان بزرگوں کی کتب موجود ہیں۔ لیکن قادیان وربوہ میں ان کے حوالے کئی بار شائع ہوچکے ہیں اور اب ان کی تشہیر فضل الدین مرزائی کے ہاتھوں کنری میں ہورہی ہے۔ناداں سمجھتا ہے کہ بڑے بڑے علمائے اسلام کا نام لے کر شاید مرزا قادیانی کا دامن نبوت صاف ہو جائے گا۔لیکن:
ایں خیال است ومحال است وجنوں
بے وقوف!حق کا دریا تو اپنی پوری آب وتاب سے جاری رہے گا۔جو صدق دل اس میں قدم رکھے گا پار ہوجائے گا اور جو کذاب آئے گا اس کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔
قارئین کرام!اب ہم حسب وعدہ پمفلٹ ندائے حق نمبر۱کے پانچویں اعتراض کا جواب دے رہے ہیں۔فضل الدین مرزائی نے پھر اسی سوال کو اٹھایا ہے کہ احرار نے پاکستان کی مخالفت کی اوراپنے لئے ۱۹۲۷ء کا حوالہ دیا۔پھر سائمن کمیشن کی آمد پر رپورٹ کاحوالہ دیا ہے۔ شاید یہ سمجھتا ہے کہ یوں لوگوں کے سامنے چور چور پکار کرمیں صاف بچ جاؤں گا۔نہیں محترم یہ بالکل ناممکن ہے۔
۱… ہمارا جھگڑاہے مرزاقادیانی نبی نہیں اورتم لکھتے ہو کہ احرار پاکستان کی دشمن ہے۔ چلو