اگر اب بھی آپ کی تسلی نہیں ہوئی تو سن لو!مومن دوستوں میں موم کی طرح نرم اور اﷲ کے دشمنوںکے سامنے فولاد کی طرح سخت ہوتا ہے۔
اسے بار بار پڑھیے حتیٰ کہ یہ بات آپ کے اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے۔ آگے چل کر فرماتے ہیں ’’ناظم صاحب مذکور نے بعض بے تعلق باتیں لکھی ہیں۔ جن کا انعامی پمفلٹ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
ٹھیک ہے بھائی!تو انکوائری رپورٹ سے عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور مولانا محمد علی جالندھری کو جو چاہے ثابت کردیں اورجب ہم بھی اسی انکوائری رپورٹ سے تمہاری متعفن لاش لوگوں کو دکھاتے ہیں تو وہ بے تعلق باتیں بن جاتی ہیں۔سچ ہے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
فضل الدین صاحب یہ تو گنبد کی مثال ہے۔جیسے گہے گا ویسی سنے گا۔
پہلا حوالہ(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷،۵۴۸،خزائن ج۵ص ایضاً)کی مندرجہ بالاعبارت لکھ کر پھر وہی گھسے پٹے اعتراضات پیش کئے گئے ہیں۔جن کا مدلل جواب ہم پہلے کتابچہ میں دے چکے ہیں۔اگر فضل الدین صاحب کو سمجھ نہیں آئے تو بسم اﷲ!ہم پھر حاضر ہیں:
کھلا ہے فیض کا چشمہ نہالے جس کاجی چاہے
’’تلک کتب ینظرالیھا۰کل مسلم بعین احبۃ المودۃ وینتفع من معار فھاو یقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا الذین ختم اﷲ علی قلوبھم فھم لایقبلون‘‘
’’ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوران کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورمجھے قبول کرتے ہیں اورمیری دعوت کی تصدیق کرتے ہیں۔مگر بدکاررنڈیوں کی اولاد جن کے دلوں پرخدا نے مہر کر دی ہے۔وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
قارئین کرام!اس عبارت کی فصاحت وبلاغت کا موازنہ قرآن کریم سے کرناتو میرے بس کی بات نہیں۔ہاں البتہ اگر فضل الدین مرزائی اسے قرآنی پیشین گوئی کے مماثل سمجھتا ہے تو یہ اس کا عقیدہ ہے۔میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ :
چہ نسبت خاک را بعالم پاک
حضرات فضل الدین نے ایک سیدھی سادھی بات کو الجھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔