کریں گے ۔ جب تم اپنے کذب کی مکمل سند پالو تو خدا کے لئے کنری کے بازاروں میں دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کے لئے حکومت کے دروازے مت کھٹکھٹانا بلکہ بہادروں کی طرح مان لینا ورنہ ہم پھر کہیں گے ’’جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں۔‘‘
اب فضل الدین مرزائی کے تینوں پمفلٹوں کا جواب لیجئے: سب سے پہلے پمفلٹ ’’قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں اس نام نہاد مجلس کے ناظم کا نام تک درج نہیں جس سے خطاب کیا جاسکے۔اس کے ساتھ دوسرے پمفلٹ ’’ندائے حق نمبر۱‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت کنری جسے بانی جماعت احمدیہ کی کوئی کتاب پڑھنی نصیب نہیں ہوئی،صرف الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کو ہی صحیفہ آسمانی سمجھتا ہے۔‘‘
قارئین کرام!بس اسی عبارت پر ہی فضل الدین مرزائی کاصدق یا کذب ،جھوٹ یا فریب پرکھ لیجئے۔ پہلے لکھتا ہے کہ نام نہاد مجلس کے ناظم کا پتہ نہیں۔ دوسری جگہ لکھتا ہے کہ ناظم الیاس برنی کی کتاب ’’قادیانی مذہب‘‘کو ہی صحیفہ آسمانی سمجھتاہے۔اب اسے یا تو یہ پتہ نہیں کہ ناظم کون ہے تو پہلے جھوٹ بولا ہے اوراگر نہیں پتہ تو دوسری جگہ جھوٹ بولا ہے۔جھوٹے پر اﷲ کی لعنت ہوتی ہے۔لعنت اﷲ علی الکاذبین!
آگے ارشاد ہوتا ہے ’’گو کتابچہ میں درشت کلامی سے کام لیاگیاہے۔‘‘
محترم فضل الدین صاحب آپ کا یہ اعتراض سر آنکھوں پر۔لیکن کاش یہ بات لکھنے سے پہلے آپ نے اپنے پمفلٹ پر بھولے سے ہی ایک نظرڈال لی ہوتی۔ مرزا محمود احمد کی تقریریں، تحریریں پڑھی ہوتیں بلکہ خود مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کوپڑھا ہوتا تو تمہیں یہ بات کہنے کی کبھی جرأت نہ ہوتی۔جس قوم کے نبی کا پورالٹریچر درشت کلامی سے بھرا ہوا ہو۔اسے درشت کلامی پر تنقید کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے کہ وہ اپنے نبی کی ایک عظیم الشان سنت کا تارک ہورہا ہے۔باقی میری تحریر جسے تم نے درست کلامی کانام دیا ہے تومحترم اس بات کی اجازت تو مرزا قادیانی بھی دے رہے ہیں۔ملاحظہ کیجئے:
’’سوجاننا چاہئے کہ جن مولویوں نے ایسا خیال کیا کہ گویا عام طور پر ہر ایک سخت کلامی سے خداتعالیٰ منع فرماتا ہے۔یہ ان کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔ورنہ وہ تلخ الفاظ جواظہارحق کے لئے ضروری ہیں اوراپنے ساتھ ثبوت رکھتے ہیں۔ وہ ہر ایک مخالف کوصاف صاف سنا دینا نہ صرف جائز بلکہ واجبات وقت سے ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۴،خزائن ج۳ص۱۱۴)