M
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ۔امابعد!
اہالیان کنری (ضلع تھرپارکر) اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ حضرت مولانا محمدعلی جالندھری جب بھی ڈگری کے سالانہ جلسے پر تشریف لاتے ہیں۔ واپسی پر کنری میں ایک تقریر سیرت النبیؐ پر کر جاتے ہیں۔اس طرح گزشتہ سال وہ آئے اور تقریر کرکے چلے گئے۔سیرت میں ان کا خاص موضوع’’ختم نبوت محمدﷺ ‘‘ہوتا ہے۔ان کی تقریر اگر اتنی بری اوراشتعال انگیز تھی کہ جس سے منافرت پھیلنے کاڈر اورنقص امن عامہ کاخطرہ لاحق ہوگیاتھا، توانصاف تو یہ تھا کہ اس سے اگلے ہی دن اس بات کانوٹس لیا جاتا۔پہلے مسلمانان کنری سے کہا جاتا،ورنہ بصورت دیگر حکومت کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔لیکن یہاں کیاڈرامہ کھیلا گیا کہ پورے آٹھ ماہ کے بعد صبح کو ایک پمفلٹ ’’مولوی محمد علی جالندھری کی اشتعال انگیزی اگر جرأت ایمانی ہے تو اصل حوالے پیش کریں اور مبلغ ۳۰۰روپیہ نقد انعام لیں‘‘فضل الدین مرزائی بازاروں میں بانٹ رہے تھے۔ مرزائی حضرات خوش تھے کہ لو بھئی ہم نے میدان مار لیا۔لیکن یہ ان کی بھول تھی۔اہل حق دنیا میں بھیک مانگ کر نہیں جیتے۔چنانچہ اگلے ہی دن مولوی اکرام الحق صاحب الخیری ڈگری سے آئے اور اس پمفلٹ کے تاروپود بکھیر دیئے۔انہوں نے مرزائیان کنری کو بار بار چیلنج کیا کہ آؤ!اور اپنے حوالے اپنی کتابوں میں دیکھو۔ اس وقت تو ان کے سامنے آنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔جب وہ چلے گئے تو پھر لگے پرپرزے نکالنے کہ اس پمفلٹ کا جواب تحریری دو۔ حالانکہ اپنے پمفلٹ میں اس بارے میں ایک لفظ بھی مذکورنہیں کہ تحریری جواب دو۔ہم نے کہا چلو بھئی یونہی سہی۔ ان کے پمفلٹ کے جواب میں ہم نے پمفلٹ ’’جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں‘‘ شائع کیا۔مدلل جواب دیا ۔ پاکیزہ اور سعید روحوں کے لئے تو انصاف یہ ہے کہ اتنا ہی کافی ہے۔مگر ان زنگ آلود قلوب کا کیاکیا جائے؟
اس پمفلٹ پراظہار خیال کرتے ہوئے فضل الدین مرزائی نے ۲۰،۲۵روز بعد پھر ۲،۲ صفحات کے سائیکلو اسٹائل ۳عدد پمفلٹ شائع کردیئے۔دوسرے لفظوں میں اب بات کو مزید آگے بڑھانے کا ذمہ دار خود فضل الدین مرزائی ہے۔فضل الدین مرزائی صاحب!اب اگر آپ نے پہل کر ہی دی ہے تو تمہیں مرزا قادیانی کی قسم میدان چھوڑ کر نہ بھاگنا۔ ورنہ پھر ہم کہیں گے ’’جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں‘‘ مرزاقادیانی کی باتیں ہمارے قلم لکھیں گے۔فیصلہ عوام