جھوٹے ہونے کی دلیل کے طورپر بیان کیا۔
مرزا قادیانی اپنی کتاب( انوارالاسلام ص۲۵،خزائن ج۹ص۲۶)پررقم طراز ہیں:’’اے غزنوی گروہ کے لوگو!اے امرتسر کے مسلمانو مگر اسلام کے دشمنو! اے لدھیانہ کے سخت دل مولویو اورمنشیو!خوب سوچ لو کہ تم کیا کر رہے ہو…الخ۔‘‘اسی کتاب کے ص۳۰ پر لکھتے ہیں :’’اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے برخلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اوراپنی شرارت سے بار بار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اور کچھ شرم و حیاء کو کام نہیں لائے گا اوربغیر اس کے کہ جو ہمارے اس فیصلہ کا انصاف کی رو سے جواب دے سکو،انکار اور زبان درازی سے باز نہیں آئے گا اورہماری فتح کا قائل نہیںہوگاتو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔‘‘
غور فرمائیے!پیش گوئی مرزاغلام احمدقادیانی کرے، وہ جھوٹی ثابت ہو اور اگر مسلمان اس پر بھی اس کی فتح کے قائل نہ ہوں تو وہ ولد الحرام بنیں اورحلال زادہ نہ ٹھہریں۔
چوتھا اعتراض
فضل الدین مرزائی کا یہ ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اور ان کی پارٹی پاکستان کی مخالف تھی…الخ۔پمفلٹ مذکور
جواب… اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مولانا محمدعلی صاحب اوران کی جماعت پاکستان بننے سے قبل تقسیم کے حق میں نہ تھے تو اس سے کیسے ثابت ہوگیا کہ واقعی مرزا غلام احمد سچا ہے؟
جواب نمبر۲… بلاشبہ بہت سے حضرات خصوصاً ہماری جماعت کے مؤسس حضرت امیر شریعت مولاناعطاء اﷲ شاہ مرحوم مغفور نے ملکی تقسیم کی مخالفت کی تھی اور مسلمانان ہند کو مشورہ دیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ کرانے کے لئے جدوجہد کی جائے۔لیکن جب سواد اعظم نے تقسیم کے حق میں رائے دی تو تقسیم سے قبل ہی حضرت امیر شریعت قدس سرہ نے اس سے اتفاق کیا اور تقسیم کے بعد انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے ملکی استحکام کے لئے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔کیونکہ ان کی رائے سیاسی رائے تھی اورسیاسی رائے بدلتی رہتی ہے۔ایک زمانہ میں خود قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح کانگریس کے ساتھ اشتراک عمل رکھتے تھے اور مشترک جدوجہد کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کی کوشش کرتے تھے۔لیکن ہندوکی تنگ نظری کی وجہ سے قائداعظم نے اپنی رائے بدلی…لیکن مرزائی ازوئے الہام تقسیم کے خلاف تھے اورہیں۔ان کا مذہبی عقیدہ تھا