۲… ’’ہماری بھلائی کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا کو اپنا دشمن سمجھیں تاکہ ان پرغالب آنے کی کوشش کریں ۔کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو ،ترقی بھی نہیں ہو سکتی۔تمام انبیاء کی جماعتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔پہلوں میں ہم سے زیادہ ایمان نہ تھا۔‘‘
(خطبہ جمعہ خلیفہ محمود احمد مندرجہ اخبار الفضل قادیان ۲۵؍اپریل ۱۹۳۰ئ)
یک نہ شد دو شد۔بشیر الدین محمود نے نہ صرف سب مسلمانوں کو اپنادشمن گردانا بلکہ مرزا غلام احمد نے محض اہل اسلام کو دشمن اورجہنمی کہا اورمحمود احمد نے اپنے کوحضورﷺ کے صحابیوں جیسا ایمان دار کہا۔
تیسرا حوالہ…فضل الدین مرزائی کی عبارت
تیسرا اعتراض مولوی محمد علی جالندھری نے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے یہ اٹھایا کہ مرزا قادیانی نے لکھا ہے:’’جو مجھے نہیں مانتا اورمیری فتح کا قائل نہیں وہ ولد الحرام ہے۔‘‘
جواب… مرزاغلام احمد کے الٹے سیدھے دعاویٰ کے پیش نظر اہل اسلام نے ۱۸۸۴ء میں ہی اس کی مخالفت شروع کر دی۔مرزا غلام احمد نے دشمنان اسلام کے ایماء پر اہل اسلام میں تفرقہ بازی پیدا کرنے کے لئے مجدد،مسیح اور نبی ہونے کا دعوے کیا اوراہل اسلام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے کبھی کبھار عیسائیوں سے بھی مناظرے کئے۔چنانچہ ایسا ہی مناظرہ مسٹر عبداﷲ آتھم عیسائی امرتسری سے ہواجو تحریری تھا اورپندرہ یوم تک جاری رہا۔جب علمی طور پر عبداﷲ آتھم کو خاموش نہ کراسکے تو ایک عدد پیشین گوئی کردی کہ پندرہ دن مناظرہ ہوا ہے۔ ایک دن سے ایک ماہ مراد ہے۔اگر عبداﷲ آتھم پندرہ ماہ کے اندر اندر نہ مرے تو مجھے ذلیل کیا جائے۔گلے میں رسہ ڈالا جائے اورپھانسی دیا جائے۔ (مجموعہ اشتہارات ج۱ص۴۳۵)
یہ دعویٰ۵؍جون ۱۸۹۳ء کو کیاگیا۔پندرہ ماہ ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ ء کو پورے ہوگئے۔لیکن عبداﷲ آتھم نہ مرا۔یہ بات مرزاغلام احمد ،اس کے خاندان اورامت پر نہایت شاق گزری۔ عبداﷲ آتھم کی موت کے لئے وظائف پڑھے گئے۔دعائیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ جب ایک دن باقی رہ گیا تو مرزاقادیانی نے بہت سے چنے لے کر رات بھر ان پر ایک سورت پڑھائی اور علی الصبح وہ چنے خود مرزا قادیانی نے ایک ویران کنویں میں گرائے اوراپنے ساتھیوں سے کہا کہ پیچھے دیکھے بغیر جلدی جلدی واپس چلو۔ اہل اسلام مرزاغلام احمد کے متعلق اس کے دعاویٰ کی وجہ سے کفر کا فتویٰ دے چکے تھے۔جب مذکورہ پیشین گوئی جھوٹی ہوئی تو اہل اسلام نے اسے مرزا غلام احمد کے