نجم الہدی مرزاغلام احمد قادیانی کی تصنیف ہے۔عربی زبان میں ہے اوراس کا ترجمہ عربی کے بالمقابل اردو میں کیاگیا ہے جس کو بعینہ نقل کر دیاگیا ہے۔
فضل الدین صاحب نے اپنے پمفلٹ میں کہا کہ یہ کتاب ۱۸۹۸ء میں لکھی گئی اور اس میں اعداء سے مراد پادری ہیں۔سبحان اﷲ!
مرزا قادیانی اسی کتاب کے (ص۱۰،خزائن ج۱۴ص۵۵)پررقم طراز ہیں :’’ومنّ علّی وجعلنی المسیح الموعود…الخ‘‘ یعنی’’اورجب میں نے اپنے مسیح موعود ہونے کی لوگوں کو خبر کی تو یہ بات اس ملک کے لوگوں پر شاق گزری اورمجھے انہوں نے کافر ٹھہرایا اور میری تکذیب کی۔‘‘
سچ ہے دروغ گو راحافظہ نباشد۔ غور فرمائیے اگر اس عبارت میں اعداء سے مراد پادری ہیں تو کیا مرزا غلام احمد دعویٰ مسیحیت سے قبل پادریوں کے نزدیک مسلمان تھے اور جب انہوں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو پادریوں نے انہیں کافر کہا یا اہل اسلام نے بالاتفاق مرزا قادیانی کے ان دعاوی کے باعث اس کے کفر کافتویٰ دیا۔ مرزاغلام احمد اسی کتاب میں آگے لکھتے ہیں:’’وکانوا یجتمعون بان المسیح ینزل من السماء کما جافی الکتاب والتفق علیہ الاکابر من الفضلاء (نجم الہدی ص۱۰،خزائن ج۱۴ص۵۶)یعنی ’’اور وہ یہ حجت پیش کرتے ہیں کہ مسیح آسمان سے اترے گا جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہے اوراس پر اکابر فضلاء کا اتفاق ہے۔‘‘
فضل الدین اورمرزا قادیانی کے سب امتی خدارا بتائیں کہ اہل اسلام کا متفقہ فیصلہ یہ نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں نازل ہوں گے اور اس پر اکابر علماء اسلام و فضلاء کرام کا اتفاق نہیں ہے توفرمائیے اس شعر میں اعداء سے مراد مسلمان ہیں یا پادری؟ اب مرزا قادیانی اور اس کے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود نے عامتہ المسلمین کو دشمن کہا یا نہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱… ’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بارباربیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ خدا کا مامور،خدا کا امین اورخدا کی طرف سے آیا ہے ۔جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۶۲،خزائن ج۱۱ص۶۲مصنف غلام احمد جنوری ۱۸۹۷ئ)
فضل الدین کہتے ہیں کہ یہ شعر ۱۸۹۸ء کا ہے اوردشمن سے مراد پادری ہیں۔ مرزا غلام احمد جنوری ۱۸۹۷ء میں کہتے ہیں کہ: ’’میں خدا کا فرستادہ ہوں اور میرے نہ ماننے والے دشمن اور جہنمی ہیں۔‘‘