گویا(نعوذ باﷲ)سب مسلمان قادیانی ہو جائیں گے۔اچھی تاویل کی ہے مرزا قادیانی کی عبارت کی۔ یعنی عذر گناہ بدتر از گناہ۔جنا ب قادیانی مبلغ صاحب کل مسلم کا جملہ ہر مسلمان کو مرزا کے ماننے والوں میں شامل کرتا ہے۔آگے ’’الا‘‘ کا استثناء رنڈیوں کی اولاد کو خارج کرتاہے۔کیا سارے پاکستان کے مسلمان قادیانی کتابوں کو مانتے ہیں اور مرزا قادیانی کی تصدیق کرتے ہیں یا سب مسلمان مرزا کو ان تیس دجالوں میں شمار کرتے ہیں۔
یقینا سب مسلمان جب جھوٹا سمجھتے ہیں تو اس خطاب میں سارے مسلمان شامل ہیں۔ بلکہ مرزا غلام احمد کالڑکا مرزا فضل احمد(جس کا جنازہ مرزا غلام احمد نے اس کو نبی نہ ماننے پر پڑھنے سے انکار کردیاتھا)بھی اس ذریۃ البغایا میں شامل ہوجاتا ہے۔باقی فضل الدین مرزائی نے ’’بغایا‘‘ کے لفظی ترجمہ پر بحث کی ہے اورلغات کی کتب سے دور کی کوڑی لائے ہیں۔ہم بغایا کا ترجمہ مرزا قادیانی کی کتب سے پیش کرتے ہیں جو مرزائیوں کے نزدیک وحی الٰہی کا درجہ رکھتی ہے۔
۱… ’’رقصت کرقص بغیۃ فی مجالس‘‘یعنی اورتو نے بدکار عورت کی طرح رقص کیا۔‘‘ (حجۃ اﷲ ص۸۷،خزائن ج۱۲ص۲۳۵)
۲… ’’اذیتنی خبثا فلست بصادق ان لم تمت بالخزی یابن بغا‘‘یعنی سر انجباثت خود ایذادادی پس من صادق نیم۔اگر تو اے نسل بدکاراں بذلت نمیری۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۸۲،خزائن ج۱۱ص ایضاً)
۳… ’’اوالتشوق الی رقص البغایا‘‘یعنی’’اورشوق کرنا بازاری عورتوں کے رقص کی طرف۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۷،خزائن ج۱۶ص۴۹)
غور فرمائیے!فضل الدین مرزائی ’’بغایا‘‘ کا ترجمہ سرکش، بے دین،نافرمان کرتے ہیں اورمرزا قادیانی ’’بغایا‘‘کا ترجمہ بازاری اوربدکار عورت کرتے ہیں۔اسے کہتے ہیں :
من چہ می سرائم وطنبورہ من چہ می سراید
دوسرا حوالہ
ان العداء صاروخنا زیر الفلاء
ونساء ھم من دونھن الاکلب
یعنی’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اوران کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۱۰،خزائن ج۱۴ص۵۳)