دیا۔ اگر ان کے خلاف احساسات اتنے شدید نہ ہوتے تو ہم نہیں سمجھتے کہ احراری اس حالت میں بھی ہر قسم کی مختلف مذہبی جماعتوں کو اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔‘‘
(منیر انکوائری رپورٹ ۱۹۵۳ء ص۲۸۰)
حوالہ نمبر ۵
۵… ’’احمدیوںکے خلاف دوسری شکایت جو ہمارے سامنے تفصیل سے پیش کی گئی ہے۔ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد نے دوسرے انبیاء کے مقابلے میں جن میں ہمارے رسولﷺ بھی شامل ہیں، اپنا ذکر مبالغہ آمیز انداز سے کیاہے اوراحمدی اپنے بعض اشخاص کے مقابلے میں امیر المومنین، ام المومنین، سیدۃ النساء ؓ ،صحابہ کرام جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو نبی کریمﷺ کے اہل بیت یا ان کے حلقہ احباب سے مخصوص طور پر منسوب ہونے کی وجہ سے خاص تقدس واحترام کی سرمایہ دار بن چکی ہے۔‘‘ (منیرانکوائری رپورٹ ۱۹۵۳ء ص۲۰۹،۲۱۰)
اصل حوالے پیش خدمت ہیں
پہلا حوالہ…(آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷،۵۴۸،خزائن ج۵ص ایضاً کا ہے۔طبع قادیان)
اصل الفاظ مرزا قادیانی ملاحظہ ہوں:
۱… ’’تلک کتب ینظر الیھا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفھا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریتہ البغایا الذین ختم اﷲ علی قلوبھم فھم لایقبلون‘‘یعنی’’ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتے ہیںاور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتے ہیں اورمجھے قبول کرتے ہیں اورمیری دعوت کی تصدیق کرتے ہیں۔ مگر بدکار رنڈیوں کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کر دی ہے،وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
ناظرین کرام!مرزاغلام احمد کی اصل عبارت اوراس کا ترجمہ درج کردیاہے ۔خودہی فیصلہ کریں کہ بقول فضل الدین صاحب یہ زمانہ مستقبل بعید کے بارے میں پیش گوئی ہے کہ آئندہ ایسا ہوگا تو پھر خود ہی حال کا ترجمہ کیوں کیا۔دیکھوٹریکٹ مذکورہ ص۱۰(ان کتابوں کو سب مسلمان محبت کی نظرسے دیکھتے ہیںاوران کے معارف ومطالب سے فائدہ اٹھاتے ہیں …الخ)
سوال یہ ہے کہ آدھی عبارت کا ترجمہ زمانہ حال کے ساتھ وابستہ کرنا اورآدھی کا زمانہ مستقبل کے ساتھ وابستہ کرنا،کہاں کی دیانت وامانت ہے اورنیز اگلی عبارت کے ترجمہ میں قادیانی فضل الدین نے یہ بھی بڑ ہانک دی کہ سب مسلمان مجھے قبول کر لیں گے اور میرے دعوے کی تصدیق کریں گے۔(ص۱۰)