تک ان کی بعض تحریروں سے منکشف ہوتا ہے کہ انہیں پہلے انگریزوں کا جانشین بننے کی توقع تھی۔ لیکن جب پاکستان کا دھندلا سا خواب مستقبل کی ایک حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگا تو ان کو یہ امر کس قدر دشوار معلوم ہوا کہ ایک نئی مملکت کے تصور کو مستقل طور پر گوارا کر لیں۔ انہوں نے اس وقت اپنے آپ کو عجب گومگو کی حالت میں پایا ہوگا۔ان کی بعض تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تقسیم کے مخالف تھے اور کہتے تھے کہ اگر ملک تقسیم ہو گیا تو وہ اسے دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی وجہ واضح طور پر یہ تھی کہ احمدیت کے مرکز قادیان کا مستقبل بالکل غیر یقینی نظر آرہا تھا۔ جس کے متعلق مرزا قادیانی بہت سی پیش گوئیاں کر چکے تھے۔‘‘ (منیر انکوائری رپورٹ ص۲۰۹)
حوالہ نمبر ۲ منیر انکوائری رپورٹ
’’لیکن مطالبات کا تعلق احمدیوں سے تھا اوروہ مطالبات اس لئے وجود میں آئے تھے کہ احمدیوں کے بعض عقائد اوران کی سرگرمیاں مخصوص انداز کی تھیں اور وہ دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ اورممیز ہونے پرزور دے رہے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مطالبات احمدیوں کے عقائد اوران کی سرگرمیوں ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔‘‘ (منیرانکوائری رپورٹ ص۲۷۹،۲۸۰)
حوالہ نمبر۳
’’تاہم بدلے ہوئے حالات کے مطابق ان (احمدیوں) کی سرگرمیوں اوران کی جارحانہ نشر واشاعت میں کوئی تغیر پیدا نہ ہوا اور غیر احمدی مسلمانوں کے خلاف دل آزار باتیں کہیں جاتی رہیں۔کوئٹہ میں مرزا بشیرالدین محمود نے جو تقریر کی وہ نہ صرف نامناسب بلکہ اشتعال انگیز تھی۔اس تقریر میں انہوں نے بلوچستان کے صوبے کی پوری آبادی کو احمدی بنالینے اوراس صوبہ کو مزید جدوجہد کے مرکز کی حیثیت سے استعمال کرنے کی علی الاعلان حمایت کی۔ اس طرح جب انہوں نے اپنے پیروؤں کو یہ ہدایت کی کہ تبلیغ احمدیت کے پروپیگنڈہ کوتیز کر دیں تاکہ ۱۹۵۲ء کے آخر تک پوری مسلم آبادی احمدیت کی آغوش میں آجائے تو گویا مسلمانوں کو تبدیلی مذہب کے متعلق کھلا نوٹس دے دیا اور جب مرزاغلام احمد کو نہ ماننے والوں کے متعلق ’’دشمن یا مجرم یا محض مسلمان ‘‘کے الفاظ استعمال کئے گئے تو جن لوگوں کی توجہ ان ارشادات کی طرف مبذول کرائی گئی۔ان کا مشتعل ہونا لازمی تھا۔‘‘ (منیر رپورٹ ۱۹۵۳ء ص۲۸۰)
حوالہ نمبر ۴منیر رپورٹ ۱۹۵۳ء
۴… ’’لیکن ان کے(احمدیوں)خلاف عام شورش کاموقع خود انہی کے طرز عمل نے بہم پہنچا