سے بلا کر جلسہ کا انتظام کیا۔مولانا نے اصل حوالہ جات پیش کئے اورمرزائیوں کو چیلنج دیا کہ یہ تمہاری کتابیں موجود ہیں۔آؤ اوراصل حوالے مطالعہ کرو۔مرزائی بھیگی بلی بن کر گھر میں بیٹھے رہے۔ جب مولانا اکرام الحق چلے گئے تو آسمان سر پراٹھالیا کہ تمہارے مولوی جھوٹے ہیں۔ ہم تو تین صد روپے دینے کوتیار ہیں۔
لہٰذا یہ چند حوالہ جات بطور نمونہ مرزائیوں کی کتابوں سے پیش ہیں۔ اب فضل الدین یا کسی اورمرزائی میں ایمانی جرأت تو درکنار ،اگر انسانی شرافت کا کوئی ذرہ بھی موجود ہے تو تین صد روپے ادا کرے۔
سب سے پہلے فضل الدین مرزائی نے ختم نبوت کی تحریک ۱۹۵۳ء کو غنڈہ گردی ، لوٹ مار، آتش زنی، قتل وغارت سے تعبیر کیا۔آئیے سب سے قبل اسی انکوائری کی روشنی میں دیکھیں کہ اہل اسلام کے جملہ فرقوں کے متفقہ مطالبات کو پیش کرنے کی وجہ سے قتل وغارت کیوں شروع ہوا۔
اہل اسلام کے سب فرقوں نے مل کر مرزائیوں کے متعلق مطالبات پیش کئے۔ اس وقت کے گورنر جنرل نے علماء سے کہاکہ اگر آپ کے مطالبات منظور کر لئے جائیں تو انگریز اور امریکہ ناراض ہوجائیں گے۔ہمیں گندم کہاں سے ملے گی۔ علماء اسلام کو گرفتار کرلیا گیا۔ تاکہ مرزائیت کا مربی انگریز خوش ہو۔ عوام نے پرامن تحریک شروع کی۔اسے دبانے کے لئے ضروری تھا کہ تشدد کا جواز پیدا کیا جائے۔ یہ فرض مرزائیوں نے ادا کیا چنانچہ ابتداء مارچ ۱۹۵۳ء میں ربوہ سے ایک جیپ میں سوار فوجی وردی پہنے مرزائی لاہور آتے رہے اوراندھا دھند مسلمانوں پر فائرنگ کرتے رہے تاکہ بدامنی پیدا ہو۔اس جیپ کا ذکر ’’انکوائری رپورٹ‘‘ کے ص۱۵۹پر موجود ہے۔
چونکہ یہ انکوائری مجلس عمل(جو تمام مسلمان فرقوں کی مشترکہ انجمن تھی)کے مطالبات اور تحریک کی جانچ پڑتال کے متعلق قائم کی گئی تھی اوراس نے اس وقت کی حکومت کے طرز عمل کو صحیح ثابت کرناتھا۔اس لئے آپ کے نزدیک ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ صحیفہ آسمانی سے کم نہیں۔ آئیے اسی سے مرزائیوں کے متعلق جج صاحبان کی رائے کا مطالعہ کریں۔
منیرانکوائری رپورٹ
۱… ’’جب تقسیم ملک سے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کادھندلا سا امکان افق پر نظر آنے لگا تو احمدی آنے والے واقعات کے متعلق متفکر ہونے لگے۔۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء کے آغاز