M
الحمد ﷲ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لانبی بعدہ
وعلی اصحابہ الذین اوفوا عھدہ!اما بعد!
اوائل اگست ۱۹۶۵ء میں مرزائیوں نے لندن میں میٹنگ کی جس میں سرظفر اﷲ خان نے مرزائی حکومت قائم ہونے کی خوشخبری بیان کی۔اس آواز نے مرزائیت کی متعفن لاش میں وہ صور پھونکا کہ مرزائی ہر جگہ جارحانہ کارروائی میں مصروف ہوگئے۔
وہی مناظرہ بازی کا چیلنج۔ وہی مرزا غلام احمد کے نبی ومرسل ہونے کے بلند وبانگ دعوے اطراف ملک میں لوٹائے جانے لگے۔جابجا اہل اسلام سے برملا کہاگیا کہ نبوت جاری ہے۔ مرزا غلام احمد نبی برحق ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں۔ ان کی قبر کشمیر میں ہے اورجس مسیح کی آمد کی خبر احادیث میں دی گئی ہے اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور احادیث میں جامع دمشق کے جس منارہ کا ذکر ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس پرنازل ہوں گے۔ اس سے مراد قادیان کا وہ منارہ ہے جو غلام احمد کے دعاویٰ کے بعد قادیان میں تعمیر کیاگیا۔
ایسے ہی حالات کنری میں پیدا کر کے اہل اسلام کا ناطقہ بند کر دیا گیا۔چنانچہ کنری کے معززین اہل اسلام نے مرکز ملتان سے رابطہ قائم کیا اور حضرت امیر مرکزیہ مولانامحمد علی جالندھری زید مجد ہم نے کنری میں سیرۃ النبیﷺ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضور سرور کائناتﷺ کے وصف خاص ختم نبوت کو تفصیل سے بیان فرمایا اوراس حدیث کی تشریح بیان فرماتے ہوئے کہ:
’’حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد تیس دجال پیدا ہوں گے اور نبوت کا دعویٰ کریں گے۔لیکن وہ جھوٹے اورکذاب ہوں گے۔‘‘مرزا غلام احمد کے دعوے نبوت کا ذکر کیا اورکہاکہ اس نے اہل اسلام کو برابھلاکہا ہے۔
مرزائیوں کی صفت ہے کہ وہ اپنا ہتھیار اس وقت استعمال کرتے ہیں جب ان کے مقابل کوئی نہ ہو۔چنانچہ فضل الدین مرزائی نے ایک پمفلٹ اس وقت شائع کیا جبکہ مولانا محمد علی جالندھری اوراس کے ساتھی کنری سے جاچکے تھے اور مولانا کے پیش کردہ حوالہ جات کو غلط کہا اور لکھا کہ یہ صحیح ہیں توثابت کر کے مبلغ تین صد روپے انعام حاصل کیا جائے۔
معززین اہل اسلام نے فوری طور پرخادم ختم نبوت مولانا اکرام الحق الخیری کو ڈگری