لوگ آنحضرتﷺ کے بعد دکسی کو نبی ماننے والے دجال ہیں۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۸،خزائن ج۷ص۱۸۴)
ختم المرسلین کے بعد مدعی نبوت کاذب وکافر
(حقیقت الوحی مطبوعہ ۱۵؍مئی ۱۹۰۷ئ) ’’تحقیق ہمارے رسول کریمﷺ خاتم النبیین ہیں اوران پر مرسلین کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔‘‘(ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ص۶۸۸)’’اورختم المرسلین ﷺ کے بعد دوسرے مدعی نبوت ورسالت کو کاذب و کافر جانتا ہوں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۱ص۲۳۰)
جھوٹا ہے کذاب ہے؟
پس بانی مرزائیت کی مذکورہ بالا ۱۸۹۱ء سے مئی ۱۹۰۷ء تک کی تحریرات سے ظاہر ہے کہ وہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو اس عالم سے کوچ کرنے سے پہلے تحقیقی طور پر ختم المرسلین ﷺ کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت ورسالت کو کاذب و کافر مانتے تھے۔لیکن ان کے ختم نبوت پر اس قطعی اور یقینی عقیدہ کے باوجود میاں محمود باپ کا منہ چڑاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار رکھ دی جائے اورمجھے یہ کہا جائے کہ تم کہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبی نہیں آئے گا تو میں اس سے کہوں گا تو جھوٹا اورکذاب ہے۔‘‘ (انوار خلافت ص۶۵)
جبکہ بانی جماعت نے الہامیہ طور پر باب نبوت مسدود قرار دیتے ہوئے فرمایا:’’کیا ایسا بدبخت جو خود رسالت کا دعویٰ کرتا ہے۔قرآن شریف پرایمان رکھتا ہے اور جو آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘کو خدا کا کلام یقین کرتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ میں آنحضرتؐ کے بعد نبی اوررسول ہوں۔‘‘ (انجام آتھم ص۲۷مطبوعہ ۲۲؍جنوری ۱۸۹۷ئ، خزائن ج۱۱ص۲۷حاشیہ)
اورمیاں محمود نے خود بھی اس الہامیہ تفسیر کی تائید ۱۹۱۰ء میں اس طرح کی تھی۔
’’اس آیت میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں اورآپ کے بعد کوئی شخص بھی ایسا نہیں آئے گا کہ جس کو مقام نبوت پر کھڑا کیا جائے۔‘‘
(رسالہ تشحیذ الاذہان ۱۰؍اپریل ۱۹۱۰ئ)
میاں محمود کی یہ متناقص خیال آئینہ حق نما کیونکہ بقول بانی جماعت :’’جھوٹے کے کلام میں تناقص ضرور ہوتا ہے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۱۱حصہ۵،خزائن ج۲۱ص۲۷۵)اور’’ایک دل سے دو متناقص باتیں نہیں نکل سکتیں۔کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘
(ست بچن ص۳۱،خزائن ج۱۰ص۱۴۳)