بانی جماعت کی شان مراقیہ کی بوالعجبیاں تو ان کے ختم نبوت پر قطعی اوریقینی ایمان کی وجہ سے بطور مراقیہ شطحیات صرف نظر کی جاسکتی تھیں۔ لیکن چونکہ مرزا بشیر الدین محمود کی نظر میں وہ اپنے دعویٰ سے ہم رسول اورنبی ہیں۔(بدر ۲۵؍مارچ ۱۹۰۸)کی رو سے حقیقی نبی اور رسول تھے۔اس لئے مذکورہ بالا الہام اور میاں محمود کی تائیدی تفسیر آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘کی روشنی میں جھوٹا، کذاب،بدبخت، پاگل اورمنافق اب کون کون ہے؟۔ تناقص کلام کی غلام احمد یہ کسوٹی پر قارئین خود پرکھ لیں: ’’عیاں راچہ حاجت بیاں‘‘
البتہ مجھے تو ہر دو کی متناقص کلامی میں مراقی خام خیالیاں کارفرما نظرآتی ہیں …کہ بانی جماعت نے فرمایا :’’مجھ کو دو بیماریاں ہیں…مراق اورکثرت بول۔‘‘(بدر قادیان ۷؍جون ۱۹۰۶ئ)
’’حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھ ہسٹریا ہے۔بعض اوقات مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (سیرت المہدی ج۲ص۵۵،روایت نمبر۳۶۹)
خلیفہ ثانی میاں محمود نے فرمایا:’’مجھ کو کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔‘‘
(ریویو قادیان اگست ۱۹۲۶ئ)
’’ہسٹریا جن مردوں کو ہو ان کو مراقی کہتے ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان ۳۰؍اپریل ۱۹۲۲ئ)
خلیفہ اول نے فرمایا:’’مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔‘‘ (بیاض نورالدین حصہ ا ص۲۱۱)
’’اورڈاکٹر شا نواز بانی جماعت کے مرید ومعالج خاص نے طبی نکتہ نظر سے فرمایا:’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا،مالیخولیایا مرگی کامرض ہے تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے کسی ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن تک اکھاڑ دیتی ہے۔‘‘ (ریویو،قادیان اگست ۱۹۲۲ئ)
پس باپ بیٹے کی شان مراقیہ میں الجھے بغیر زیر نظرحوالہ جات سے ظاہر ہے کہ بانی تحریک مرزائیت اپنے مفروضہ دورماموریت میں بھی حضورﷺ کے بعد نبوت ورسالت کے ہر مدعی اور ایسے نبیوں کے پیروکاروں کو دائرہ اسلام سے خارج، بے دین، کاذب، کافر، لعنتی، مفتری اور دجال کہتے اورسمجھتے تھے۔ پس ایسے بے دین، منکر اسلام لوگ خارج از امت ہونے کی وجہ سے ہر زمانہ میں کافر ودجال کہلائیں گے۔مسلمان ہرگز نہیں۔اپنے امام کے اس سیدھے سادے فیصلے کی تائید مرزائی بھی کریںگے۔انشاء اﷲ!
’’اس لئے کہ ہو جو خدا اوررسول کے فرمان کا منکر ہے،کافر ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹،خزائن ج۲۲ص۱۸۵)