طرح دہراتے ہیں اوراس پر تقریریں اورمناظرے کرتے ہیں جس کا کوئی ایک جزو بھی صحیح نہیں اور نہیں سوچتے کہ کتنے بڑے دھوکہ میں انہیں ڈالاگیا اور وہ لوگوں کو ڈال رہے ہیں۔
۱… ’’اورجب خدا وند ایلیاء کو بگولے میں آسمان پراٹھا لینے کو تھا تو ایسا ہوا کہ ایلیا ہ ایشع کو ساتھ لے کرجلجلال سے چلا۔‘‘ (سلاطین باب ۲ص۳۱۶)
۲… ’’انبیاء زادے جو بیت ایل میں تھے۔ایشیع کے پاس آکر اس سے کہنے لگے۔کیا تجھے معلوم ہے کہ خداوند آج تیرے سر پر سے تیرے آقا کو اٹھالے گا۔‘‘ (سلاطین باب ۲ص۱۶)
۳… ’’ایلیا نے ایشع سے کہا۔اس سے پہلے کہ میں تجھ سے لے لیا جاؤںبتاکہ میں تیرے لئے کیاکروں۔‘‘ (سلاطین باب ۲ص۳۱۶)
۴… ’’وہ آگے چلتے اورباتیں کرتے جاتے تھے کہ دیکھو ایک آتشی رتھ اورآتشی گھوڑوں نے ان دونوں کو جداکردیا اور ایلیا بگولے میں آسمان پر چلاگیا۔‘‘ (سلاطین باب ۲ص۳۱۶)
۵… ’’دیکھو!خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن آنے سے پیشتر میں ایلیاء نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔‘‘ (ملاکی باب۴ص۸۹۳)
۶… ’’ایلیا موسیٰ کے ساتھ ان کو دکھائی دیا اور وہ یسوع سے باتیں کرتے تھے۔‘‘
(مرقس باب ۸ ص۴۲،متی باب ۱۷ص۲۱)
۷… ’’اس نے جواب میں ان سے کہا کہ ایلیا البتہ آئے گا اور سب کچھ بحال کرے گا۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیا تو آچکا اور انہوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔ اسی طرح ابن آدم ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔اب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے انہیں یوحنا پیستمہ دینے والے کی بابت کہا۔‘‘ (متی باب ۱۷ص۲۱)
ان نکات پر آپ غور کریں۔ان میں کہیں یہ بات نہیں پائی جاتی کہ کوئی کسی کی مثل آیا ہے یا کسی نے اپنے کو آسمان سے نازل ہونے والے کی مثل بنایاتھا۔جو بات ان میں واضح طور پر موجود ہے یہ ہے کہ ایلیاء کو خدا نے بگولے میں آسمان پراٹھایا اورپھر وہ نازل ہوئے۔حضرت مسیح کے شاگردوں نے ان سے باتیں کرتے دیکھے اورپھر غائب ہوگئے اوراٹھائے جانے سے پہلے بھی انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بتادیاتھا کہ خدا مجھے اٹھانے والا ہے۔ٹھیک یہی بات حضرت مسیح کے متعلق انجیل میں اورخود قرآن وحدیث میں موجود ہے کہ اﷲ نے انہیں اٹھالیا ہے اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے۔یہ بات مرزا قادیانی کوراس نہیں آئی اوراس کی بجائے ایک ایسی کہانی جوڑتے ہیں جو خود ان کے ماننے والوں کے بغیر کسی کا دماغ قبول نہیں کرتا۔