۳… ’’جس قدر رسول اور نبی گزرے ہیں سب کو ابتلاء یہ پیش آئی تھی کہ شریر لوگ کتوں کی طرح اس کے گرد ہوگئے تھے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۴۸،خزائن ج۲۲ص۴۶۳)
۴… ’’اس نے بہت سا روپیہ میرے دامن میں ڈال دیا۔میں نے اس کا نام پوچھا۔ اس نے کہا نام کچھ نہیں۔میں نے کہا آخر کچھ تو نام ہوگا۔اس نے کہا میرا نام ٹیچی ٹیچی ۔پنچابی زبان میں وقت مقررہ کو کہتے ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۳۲،خزائن ج۲۲ص۳۴۶)
پہلی عبارت میں مرزاقادیانی اپنے کسی گستاخ کو جلی کٹی سناتے ہوئے آپے سے باہر ہوتے ہیں۔ وحی ان پر بارش کی طرح برستی تھی اور پیشین گوئیاں انہیں جھاڑتے رہنے کا خبط تھا۔ جاتے جاتے ایک ساتھ کئی عدد پیشین گوئیاں سنا دیتے اورپھر عورت، مرد، بچے،بوڑھے مسلم، غیر مسلم اور پاگل تک کو گواہ بناتے۔ادھر کوئی خط ملا ۔ادھر پاس والے ہندوؤں کو دہائی دیناشروع کردی کہ دیکھو رام لال اتنے دنوں کے بعد اتنے روپے کا منی آرڈر آجائے گا۔بھول نہ جانا اور گواہ رہنا۔ جہاں حالات یہ تھے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان پیشین گوئیوں کی پڑتال نہ ہوتی۔چنانچہ پڑتال ہوئی اورمرزا قادیانی جب اپنی پیشین گوئیوں کے غلط معنے اورغلط تاویلیںکرتے کرتے تھک گئے تو آخر کار بازاری زبان پراترنے کے لئے مجبور ہوئے۔اب ان کے امتی اس کوشش میں ہوں گے کہ یہ کتوں کی عو عو بھی کہیں ’’صاف صاف‘‘قرآن سے دکھائیں۔ کیونکہ وہ ان کی ہر بات قرآن سے دکھانے کے عادی ہیں اورخود مرزا قادیانی بھی اپنی گالیوں کی سند قرآن سے پہنچاتے تھے۔معاذاﷲ!
دوسری عبارت میں کہتے ہیںکہ سب رسولوں کے گرد ان کے مخالف کتوں کی طرح جمع ہوگئے تھے۔اس طرح انہوں نے رسولوں کی مدافعت کے رنگ میں اپنے آپ کو رسول اوراپنے مخالفوں کو کتے بنادکھایا۔اور یہ ہوشیاری قابل داد ہے۔
تیسری عبارت میں وہ اپنے ایک الہام کاذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں جو عربی میں ہے اوراس کا ترجمہ یہ ہے کہ کتا کتے کی موت مرے گا۔یہ ان کا کوئی منکر ہوگا۔مگر الہام خوب ہے۔ تہذیب سے دور ہونے کے ساتھ بے معنے ہے۔ اس کے شیطانی انجام ہونے میں کیا شبہ ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ آدمی جب الہام کی خواہش کرے تو شیطان اسے الہام کرتا ہے اوریہ خواہش آپ کومعلوم ہے کہ ان کے بغیر اورکسے تھی؟۔
چوتھی عبارت میں وہ اپنے کسی خواب یا الہام کاتذکرہ کرتے ہیں کہ مجھے کسی نے بہت سے روپے دیئے۔یعنی بلی کا خواب چھچھڑے۔جب میں نے اس سے نام پوچھا تو نہ بتایا۔ پھر