اوپر کی عبارت میں مرزا قادیانی اپنے آپ کو مسیح کہتے ہیں اور اس سے پہلے ہمیشہ سے کہتے رہے کہ میں مسیح نہیں ہوں۔جس کا احادیث میں وعدہ ہے۔بلکہ اس کی مثل ہوں۔گویا اصل اور مثل ان کے ہا ں ایک ہی ہیں۔پھر اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ میں جو مسیح ہوں۔مجھے خدا آسمان سے مدد دے گا اور اس وجہ سے جہاد حرام ہے۔یہ الفاظ کئی وجوہ سے کفر ہیں۔ اول تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کو اورقرآن میں رسول خداﷺ اورصحابہ کرامؓ کو جب جہاد کا حکم فرمایا گیا تھا تو وہ سب کے سب خدا کی آسمانی مدد سے معاذ اﷲ محروم تھے۔ یہ آسمانی مدد کی نعمت صرف مرزا قادیانی کا حصہ ہے اور تکلیف اورمشقت ان کاحصہ تھا۔یہ بات بھی کفر سے کم نہیں۔اس کے بعد یہ کہہ اٹھنا کہ اب جہاد جو سب سے اہم فرض تھا،وہ حرام ہوگیا ہے۔یہ تو سو کفر کا ایک کفر ہے۔کیونکہ شریعت کے ایک مباح ومکروہ کو حرام بتانا جہاںایمان کے خلاف ہے۔وہاں ایک فرض کو حرام کہنا کفر نہیں تو اور کیا ہے؟۔پھر پہلے مارنے ڈرانے کی ضرورت تھی اوراب دلیل کی ضرورت ہے۔آپ سوچئے کہ کل اور آج میں فرق کیاہے۔پہلے زمانہ کے لوگ پیادہ چل کر اور اونٹوں پر سوار ہو کر حج کو جاتے تھے۔ اب موٹر اورجہاز کے ذریعہ جاتے ہیں۔توکیا اب اونٹ کی سواری کرناحرام ہوگیا ہے۔ بات صرف انگریز کی خوشنودی کی تھی۔ورنہ فرض کسی زمانہ سے بدل نہیں جاتا۔
دوسری عبارت میں اپنی دین بیزاری کا کھلااعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے انگریز کی اطاعت اورجہاد کی ممانعت میں لکھ لکھ کر پچاس الماریاں بھر دی ہیں۔ یہ بات وہ شخص کہتا ہے جس کا ایک دل فریب نعرہ یہ ہے کہ میں شریعت اسلامیہ میں کوئی تبدیلی لانے کے لئے نہیں آیا ہوں۔ میں تو بس ایک معمولی قسم کانبی ہوں۔جس کے انکار سے بھی کوئی کافر نہیں ہوتا۔ادھر وہ دین میں کوئی تبدیلی لاتے اوردوسری طرف وہ ایسی بات لکھ کر کہ پچاس الماریاں بھرتے ہیں۔ جس کا زبان پر لانا بہت بڑا کفر ہے۔بالکل یہی پوزیشن انگریز کی اطاعت کی ہے۔خدا کی شریعت جس اطاعت کو حرام کرتی ہے اور خد اکاقرآن جس کافر کے ساتھ جہاد اورجنگ کو لازم کرتا ہے۔ اس کی جب اطاعت اوروفاداری فرض ہونے لگے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ احکام خدا اور رسول کا اورحدود شریعت کا احترام کیا رہ جائے۔اس کے بعد تو آدمی کا نفس جس فرض کوچاہے حرام کرے اور جس حرام کوچاہے فرض بنالے۔
تیسری عبارت میں وہ کہتے ہیں کہ احادیث جن میں ہے کہ حضرت مسیح کے زمانہ میں بچے سانپوں سے اوربھیڑیے بھیڑوں سے کھیلیں گے۔اس سے وہ تین اور کڑیاں اپنے پاس سے ملا کرانگریزوں کی تعریف اخذ کرتے ہیں۔یعنی مسیح ٹھہرے وہ خود، اوران کے زمانہ میں جو حکومت