نہ مان سکتے تھے۔ایک سمجھدار آدمی کو تو کوئی اپنے جیسا انسان بات کہے تو وہ مان جاتاہے۔مگر مرزا قادیانی پر خدا کی وحی کی بارش ہوئی توخدا کا یہ حکم ان کے ہاں توجہ کے قابل ہواکہ مسیح توہے۔
اس کے بعد اوپر کی آیت کو لیجئے جس کا حصہ انہوں نے دیا ہے۔اس کا پہلا حصہ لانے سے مضمون یوں ہے:’’محمد بس اﷲ کا رسول ہے،اس سے پہلے سب رسول گزر چکے ہیں۔‘‘
مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ سب رسول مر گئے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے یہی بات مان لیجئے کہ سب رسول مر گئے ہیں۔ اس سے بھی مرزاقادیانی کے پلے تو کچھ نہیں رہے گا۔ کیونکہ جب رسول سب وہی تھے جو محمد ﷺ سے پہلے مر گئے ہیں۔توپھر انہیں کیوں رسول مانا جائے۔مگر آیت میں ’’خلت‘‘کا لفظ ہے۔ ماتت کا نہیں۔خلا کے معنے ہیں خلا میں جانا یا ایک جگہ سے گزر جانا۔ خود قرآن ہی میں ہے’’واذا خلوا لی شیطینہم قالوا ان معکم‘‘جب منافق اپنے سرغنوں کے ہاں تنہا ہوتے ہیں تو ان کے ساتھی ہونے کا دم بھرتے ہیں۔یہ تو اس وقت ہے کہ خلت کے معنے گزرے اورخلا میں پہنچنے کے ہوں۔ جیسا کہ یہ اس کے حقیقی معنے ہیں اور اگر اس کے معنے موت کے لئے جائیں اورمفہوم ہو کہ سب نبی فوت ہوگئے ہیں تو بھی ان فوت ہونے والوں میں حضرت مسیح علیہ السلام اورمحمدﷺ بہر حال شامل نہیں۔ اس لئے کہ انہیں قرآن نے ایک دفعہ زندہ قرار دیا ہے اورموت کے ہر تذکرہ پر انہیں زندہ ماناجائے گا۔محمدﷺ کو تو اسی آیت میں زندہ ٹھہرایاگیا ہے اوران پر ہی قرآن نازل ہورہاتھا۔
رہے حضرت مسیح تو ان کے حق میں سورئہ النساء کا بیان ہے کہ نہ یہود نے انہیں قتل کیا اور نہ سولی دیا۔بلکہ ان کو اﷲ نے اپنی طرف اٹھالیا۔نیز سورئہ بقرہ کی دوآیات میں جن رسولوں کے گزر جانے کا بیان ہوا ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام شامل نہیں اور انہیں گزر جانے والوں سے الگ دکھایاگیا ہے۔نیز سورئہ النساء میں یہ بھی ہے کہ مسیح کی موت سے پہلے تمام اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے اوروہ قیامت کے روز ان پرگواہ ہوگا۔سورئہ النساء کی آیت پر مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ اﷲ نے حضرت مسیح کو اٹھایانہیں بلکہ انہیں زمین پر رکھا اوران کے مرتبہ کو اپنی طرف اٹھالیا۔آیت کے اس مفہوم پر ظاہر ہے کہ ان کا کوئی امتی ہی سردھن سکتا ہے۔کیونکہ ان کے مرتبہ کو اپنی طرف اٹھانے کی خدا کو کیاپڑی تھی اوران کے بلند مرتبہ کو دشمنوں کے قتل اور سولی سے کیا خطرہ ہوسکتاتھا۔
آیت کا بیان اس بارہ میں نص ہے کہ اﷲ نے ان کو قتل وصلیب سے بچالیا اورانہیں اپنی