بھی براق ہی پر تشریف لے گئے ۔گودرمیان میں بیت المقدس بھی اترے۔ بیہقی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ پھر (بیت المقدس میں اعمال سے فارغ ہونے کے بعد) میرے سامنے ایک زینہ لایا گیا جس پر انسانوں کی ارواح (موت کے بعد ) چڑھتی ہیں۔ اس زینہ سے زیادہ خوبصورت مخلوق میری نظر سے نہیں گذری۔ تم نے (بعض) مرنے والوں کو آنکھیں پھاڑ کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ وہ اس زینہ کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔‘‘
آپ ﷺ کے اعزاز میں یہ زینہ جنت الفردوس سے لایاگیا، اس زینہ کو دائیں بائیںاور اوپر نیچے سے فرشتے گھیرے ہوئے تھے ، حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے لئے ایک چاندی کا اور ایک سونے کا زینہ لایا گیا ، یہاں تک کہ آپ ﷺ او رحضرت جبرئیل علیہ السلام اس پر چڑھے ، ابن اسحاق سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جب میں بیت المقدس سے فارغ ہوا تویہ زینہ لایا گیا ، اور میرے رفیق سفر( جبرئیل )نے مجھے اس پر بٹھایا یہاں تک کہ میں آسمان کے دروازے تک پہنچا۔‘‘
فائدہ: (گذشتہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر براق پر ہوا ،اب اس سے روایت سے معلوم ہوا کہ زینہ کے ذریعے آسمان پرگئے ،تو اس کا جواب ہے کہ تھوڑا سفربراق پر کیا ہو اور تھوڑا سفر زینے پر ، جس طرح مکرم مہمان کے سامنے کئی سواریاں پیش کی