۵… جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں: ۱۹۶۵ء کے لگ بھگ مجاہد ملت بانی رہنما عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ نے کنری ضلع تھرپارکر سندھ میں رحمت عالمﷺ کی سیرت طیبہ کے عنوان پر خطاب کے دوران آپﷺ کے وصف خاص عقیدہ ختم نبوت پر بیان کرتے ہوئے مرزاقادیانی ملعون کے تین حوالے پیش کئے۔ جس میں اس نے مسلمانوں کے خلاف بدزبانی کی۔ آٹھ ماہ بعد کنری کے قادیانی فضل الدین نے ایک پمفلٹ میں چیلنج کیا کہ یہ حوالہ جات دکھائے جائیں تو تین صدروپیہ دینے کے لئے میں تیار ہوں۔ اگلے دن ڈگری جامعہ اشاعت القرآن کے ناظم عمومی مولانا اکرام الحق الخیری کتب مرزا لے کر کنری پہنچ گئے اور سپیکر پر چیلج کیا کہ آؤ حوالے دیکھو۔ رات کو جلسہ عام ہوا۔ قادیانیوں کو سانپ سونگھ گیا۔ فضل الدین قادیانی، مرزاقادیانی کے خروج کی جگہ میں چھپ گیا۔ مولانا اکرام الحق الخیری ڈگری واپس تشریف لے گئے۔ قادیانیوں نے کہا کہ پمفلٹ کا جواب پمفلٹ سے دیا جائے۔ چنانچہ یہ پمفلٹ ’’جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں‘‘ ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت کنری کی طرف سے شائع کیاگیا۔
۶… امین الملک جے سنگھ بہادر کرشن گوپال، مرزاغلام احمد قادیانی حجر اسود کے ادنیٰ ترین خادم فضل الدین مرزائی کے تینوں پمفلٹوں کا جواب، بمع چیلنج مناظرہ: پمفلٹ سابقہ ’’جس کی بات نہیں اس کی ذات نہیں‘‘ کے شائع ہونے پر فضل الدین مرزائی نے تین پمفلٹ سائیکلوسٹائل تقسیم کئے۔ ان تینوں سائیکلو سٹائل پمفلٹوں کا جواب اس رسالہ میں دیاگیا جو ناظم مجلس تحفظ ختم نبوت کنری نے شائع کیا۔
۷… ختم نبوت پر قومی اسمبلی کا متفقہ فیصلہ: ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو ربوہ (چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پر چناب ایکسپریس سے سفر کرنے والے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کو قادیانی اوباشوں نے تشدد، بربریت، ظلم وستم کا نشانہ بنایا۔ جس کے ردعمل میں ملک گیر تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء چلی۔ تب پاکستان کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انہوں نے یہ مسئلہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپرد کیا۔ پوری قومی اسمبلی کو ایک خصوصی کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔