اختر…جی ہاں یہی تو میں کہتاہوں کہ مرزا قادیانی ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں کہ وہ روح اﷲ تھے۔ جب حمل ٹھہر گیا بعد میں نکاح ہوا۔مگر یہاں (کشتی نوح ص۱۶ج۱۹ ص۱۸حاشیہ)پرصاف اورواضح الفاظ میں یہ فرماتے ہیں کہ یہ سب حقیقی بھائی اوربہنیں تھی جو یوسف کی اولاد تھے۔اس جگہ صاف طور پر عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یوسف نجار کی اولاد قرا ردیاہے اوراسی میں ان کی توہین ہے۔
حمید…واہ مولانا!آپ نے بھی توکمال کردیا۔استدلال ہو توایسا ہی ہو۔
جمیل…لیجئے منظورصاحب بھی اب خاموش ہو گئے۔بھلا اس کی تاویل اب کیا کریںگے؟
حمید…کیوں جی مرزاقادیانی ابھی عیسیٰ علیہ السلام کا پیچھا چھوڑیں گے یا نہیں؟
اختر…آپ اتنے جلد ہی گھبراگئے۔ابھی تو کئی حوالجات باقی ہیں۔مگر خیر میں آپ کی خاطر اب اختصار سے کام لیتاہوں۔سنئے آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق پرحملہ کرتے ہوئے اپنی کتاب(چشمہ مسیحی ص۱۱،خزائن ج۲۰ص۳۴۶)پرارقام فرماتے ہیں اورلطف یہ ہے کہ یہاں یسوع مسیح نہیں بلکہ’’عیسیٰ علیہ السلام‘‘ لکھتے ہیں:
’’تعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود اخلاقی تعلیم پرعمل نہیں کیا۔ انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پربددعا کی اور دوسروں کو دعا کرنا سکھلایا اور دوسروں کو یہ حکم بھی دیا کہ تم کسی کو ناحق مت کہو۔ مگر خود اس قدر بد زبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولد الحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اوربرے برے نام رکھے۔ اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاق کریمہ دکھاوے۔پس کیا ایسی تعلیم ناقص جس پر انہوں نے ـآپ بھی عمل نہ کیا۔خداتعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہیْ‘‘
کیوں مولانا منظورصاحب اس عبارت سے بھی کوئی توہین کاپہلو مترشح ہورہا ہے یا نہیں؟
جمیل…وہ کہہ دیںگے کہ اس میں کوئی توہین نہیں۔ کیونکہ مرزا قادیانی کی ہر بات مستحسن ہی نظرآتی ہے انہیں۔
اختر…اچھااگر اس سے بھی تسکین نہیں ہوتی تواور سن لیں۔مرزا قادیانی (ضمیمہ انجام آتھم ص۹، خزائن ج۱۱ص۲۹۳)پرحضرت عیسیٰ کے متعلق یوں گوہر افشانی کرتے ہیں:’’ہم ایسے ناپاک خیال اور متکبر اور راست باز وں کے دشمن کو ایک بھلا مانس آدمی بھی قرار نہیں دے سکتے۔چہ جائیکہ اس کونبی قرار دیں۔‘‘
حمید…توبہ توبہ کس قدر دریدہ دہنی ہے۔