خالی کر دی اوراپنے ہم جولیوں سے ان کا انٹرڈیوس(تعارف) کرانے کے لئے یوں گویا ہوئے:
’’ڈیئر خالد،یہ ہمارے پرائے کلاس فیلو ہیں۔ ۱۹۱۷ء میں ہم دونو ں نے اکٹھے بی۔اے کا امتحان دیا۔ یہ ڈاکٹری میں چلے گئے اور میں ایل ایل بی میں۔ مجھے قدرتی طور پر ان سے بہت محبت ہے۔ یہ ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو اپنے علم وفضل کی وجہ سے اب تک مشہور چلا آتا ہے۔
ڈاکٹرصاحب اورآپ کی تعریف؟
مسٹرحمید:یہ بھی میرے پرانے مہربان ہیں۔ پلیڈر ہیں اورآج کل منٹگمری پریکٹس کر رہے ہیں۔ محض اس جلسہ کی خاطر تشریف لائے ہیں۔مشہور لیکچرار ہیں اور یہ جو آپ کے پاس بیٹھے ہیںمولانا اختر حسین صاحب ہیں۔ یہ ایم اے ہیں۔ منشی فاضل بھی ہیں اورمولوی فاضل بھی میرے کالج کے پروفیسر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب… شکریہ،تشریف رکھئے۔ کیا باتیں ہورہی تھیں۔ میں آپ کی گفتگو میں ناحق مخل ہوا۔
خالد… کچھ نہیں!یونہی آج کل کے جلسہ پر گفتگو ہورہی تھی کہ اس کا مقصد کیا ہے۔
حمید… میں یہ کہہ رہاتھا کہ یہ سیرت کا جلسہ ہے۔ جیسا کہ اشتہار سے ظاہر ہے مختلف مذاہب کے لیکچرار ہوںگے(جنہیں دعوت دی گئی ہے) اورسیرت رسول کریمﷺ پر تقریر کریںگے۔ اختر صاحب فرماتے تھے کہ یہ صرف قادیانیوں کاجلسہ ہے اوروہی اس کے بانی مبانی ہیں۔ سیرت رسول کریمﷺ کا تو محض بہانہ بنالیاگیا ہے۔درحقیقت تبلیغ قادیانیت اس کااصل مقصد ہے۔
ڈاکٹر جمیل …اورآپ کی کیا رائے ہے؟
حمید… یہاں رائے زنی کی کیا ضرورت ہے۔ جلسہ خواہ کسی کا بھی ہو ہمیں اس سے کیا؟ یہ تو محض مولویانہ باتیں ہیں کہ فلاں قادیانی ہے۔فلاں وہابی ہے۔ فلاں شیعہ ہے۔ دیکھو ان کی محفلوں میں نہ جاؤ۔ ورنہ کافر ہو جاؤ گے۔
خالد… خوب بہت خوب!ایک مسلمان کو ایسا ہی آزاد خیال ہونا چاہئے۔ میںآپ کی اس رائے کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں۔
اختر… قدر تو ہم بھی کرتے ہیں مگر اس قدر مادرپدرآزاد ہونا بھی پسند نہیں کرتے کہ سب کو ایک نظر ہی دیکھنے لگیں۔