۱۸۳۹ء درج ہے۔لیکن ۱۹۴۰ء کے ایڈیشن میں مرزاقادیانی کی اصل تاریخ پیدائش تبدیل کروا کر ۱۸۳۹ء کی بجائے ۱۸۳۵ء درج کروائی گئی ہے۔
۱۹۴۰ء کے ایڈیشن میں ذیل کی عبارت بھی زائد درج کرائی گئی ہے۔ جس کا اس سے ما قبل کے ایڈیشنوں میں نام ونشان تک نہیں:
’’مرزاسلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور۵ مربعہ جات اراضی عطاء ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اس کا انتقال ہوگیا۔اس کا سب سے بڑالڑکا مرزاعزیز احمد ایم اے اب خاندان کا سرکردہ اورپنجاب میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہے۔خان بہادر مرزاسلطان احمد کا چھوٹابیٹا رشید احمد ایک اولوالعزم زمیندار ہے اوراس نے سندھ میںاراضی کا ایک بہت بڑا رقبہ لے لیاہے۔‘‘
۱۹۴۰ء کے ایڈیشن میں Appendixعلیحدہ طبع ہوا ہے۔اس میںمرزا قادیانی کے خاندان کاشجرہ نسب درج کیاگیا ہے۔ اس میںمرزا محموداحمد کے سترہ بیٹوں میں سے نام وار چار کے سن وفات اورباقی تیرہ کے سن پیدائش بھی درج کرائے گئے ہیں۔ اسی طرح مرزا بشیر احمد اورشریف احمد کے بیـٹوں کے سن پیدائش اوروفات درج کرائے گئے۔
ان تحریرات اوراضافات سے یہ امر واضح ہے کہ پنجاب چیفس کے اس ایڈیشن میں یہ تبدیلیاں اور تحریفات محض سہو کاتب اور ارباب مطبع کی کرم فرمائیاں نہیں بلکہ اس تمام ہیر پھیر میں مرزا بشیرالدین محمود احمد اوراس کے خاندان کا پورا غرض مندانہ ہاتھ ہے۔
ثالثاً! ایک معترض کے لئے یہ اعتراض کرنے میں کون سا امر مانع ہو سکتا ہے کہ مرزا محمود احمد نے ’’سیرت مسیح موعود‘‘ میں پنجاب چیفس کا حوالہ دیتے ہوئے مرزاغلام احمد کا صرف سن پیدائش تحریف کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا۔بلکہ اصل کتاب کے اردو ایڈیشن کے ص۶۹ اور۷۰ میں بھی نہایت صفائی سے تحریف مزید کی جسارت فرمائی ہے۔ اس اردو ایڈیشن کے ص۶۹ سطر ۳،۴ میں یوں درج ہے:’’مگر اس نمبرداری کا کام بجائے اس کے سلطان احمد کے اس کا چچا زاد بھائی نظام الدین جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا ہے کرتا ہے۔‘‘
ص۷۰ سطر۴ میں یوں درج ہے:’’مرزاغلام احمد کا اپنا رشتہ دار ایک بھی اس کا پیرو نہیں ہے۔‘‘
ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ مرزا محمود احمد نے سیرت مسیح موعود میں ان حوالجات کو نقل