’’واضح ہو کہ سرلیپل گرفن کی اصل کتاب جو انگلش میں ہے،مجھے نہیں ملی۔ جس میں خالد محمود نے سرموصوف کی طرف سے حضرت اقدس کی پیدائش ۱۸۳۹ء لکھنے کاذکر کیا ہے۔البتہ اس کا وہ ترجمہ ملا ہے جو ’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ کے نام سے سید نوازش علی پنشنر نے شائع کیا ہے۔ اس میں آپ کی پیدائش کا سن ۱۸۳۹ء کی بجائے ۱۸۳۵ء درج ہے۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ نے جو ’’سیرت مسیح موعود‘‘ تحریر فرمائی ہے۔اس میں لیپل گرفن کے اقتباس میں ۱۸۳۷ء کا درج ہونا محض سہوکاتب ہے۔‘‘
قاضی صاحب نے اتنا بیان دے کرقصہ ہی پاک کردیا۔تمام گناہ کی ذمہ داری کاتب پر ڈال کر خلیفہ صاحب کو بری الذمہ قرار دے دیا۔
اولاً!قاضی نذیراحمدصاحب کا یہ بیان پڑھ کر بجز اس کے کیا کہا جائے کہ ایسی باتیں تو ان لوگوں کے لئے مغالطے کا سامان بن سکتی ہیں۔ جنہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی تصنیفات یا اس سلسلہ کے دوسرے لٹریچر کا کبھی توجہ سے مطالعہ نہ کیاہو۔لیکن ہر وہ شخص جس نے اس سلسلہ کے لٹریچر کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ’’الفضل‘‘ ۳؍ستمبر۱۹۳۳ء کے ذریعہ پہلی دفعہ یہ بات عبدالرحیم صاحب درد کے مضمون سے منظرعام پرآئی کہ مرزاقادیانی کا سن پیدائش ۱۸۳۵ء بھی ہوسکتاہے اورتین برس بعد ۱۱؍اگست ۱۹۳۶ء کو مرزابشیر احمد نے اس پر عملدرآمد کرایا۔
قارئین کرام!اب خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ جس چیز کی بنیاد ہی ۱۹۳۶ء میں رکھی جاتی ہے تو وہ ۲۵برس پیشتر۱۹۱۱ء میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں کس طرح منظر عام پرآسکتی ہے؟
ثانیاً! اب رہی یہ بات کہ قاضی صاحب نے ’’پنجاب چیفس‘‘ کے کس ایڈیشن کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کس سن میں طبع ہوا۔اس بات کی ٹوہ کے لئے راقم الحروف نے سنٹرل لائبریری بہاولپور کی طرف رجوع کیا۔معلوم ہوا کہ ’’پنجاب چیفس‘‘ کا یہ ایڈیشن جس سے قاضی صاحب نے حوالہ دیا ہے ۱۹۴۰ء میں شائع ہوا۔ماشاء اﷲ !چشم بد دور۔اس ایڈیشن میں حسب خواہش بے بہا اتنی تبدیلیاں کرائی گئی ہیں کہ انسان پڑھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
۱۹۱۱ء کے ایڈیشن میں ’’مرزا سلطان احمدرئیس قادیاں‘‘ کا عنوان دیاگیاتھا۔
۱۹۴۰ء کے ایڈیشن میں اس عنوان کو تبدیل کروا کر مرزا عزیز احمد آف قادیاں لکھوادیا گیا۔
۱۹۱۱ء کے ایڈیشن اوراس سے ما قبل تمام ایڈیشنوں میں مرزاغلام احمد کی تاریخ پیدائش