ممکن بتایا ہے۔یہ فرضی قیاس ان کا غلط سہی۔مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اس سے زمین میں کوئی اور نبی پیدا ہوگا اورنانوتوی صاحب نے عشق رسول میں قریب قریب وہی کچھ کہا ہے جو منصور حلاج نے خدا کے عشق میں کہاتھا۔دونوں کا حساب اﷲ کے پاس ہے۔نہ منصور خدا اونہ کوئی طفیلی نبی ہے۔مولانا روم کا یہ شعر مثنوی دفتر اول میں بتایاگیا ہے۔ جو وہاں موجو دنہیں:
مگر کن ذر راہ نیکو خدمتے
تانبوت یابی اندر امتے
اس میں مکر وشرارت سے امتی آدمی کو نبی بن دکھانے کاسبق دلایاگیا ہے اورمرزا قادیانی نے یہی کچھ کیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ شعر انہی کا ہو اورمولانا روم کے سرمڑدیاگیاہو۔
حضرت پیران پیر صاحب کی جو عبارت کئی واسطوں سے نقل ہوکرآئی ہے۔ اس کا ترجمہ خود قادیانیوں سے ہی سنئے!
’’بے شک اﷲ تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اوراپنے رسول کے کلام کے معنے سے آگاہ کرتا ہے اوراس مقام کا رکھنے والا انبیائ، اولیاء میں سے ہوتاہے۔‘‘اس کے الفاظ پر غور کیجئے! اگر اس کا مطلب یہی ہے کہ مرزاقادیانی نبی ہیں تو حضرت پیران پیر صاحب کیوں نبی نہیں؟۔ انہوں نے نبوت کا دعویٰ نہیں اورنہ ہی کوئی انہیں نبی مانتا ہے۔یعنی مدعی سست گواہ چست۔
عبدالکریم جیلی کا انسان کامل ابن عربی کی فصوص الحکم ہے اور فصوص الحکم کے بارہ میں حضرت مجدد نے فرمایاتھا:
مارانص باید نہ کہ فص
اس کا ترجمہ خود قادیانیوںسے سنئے:’’ہر نبی ولایت دلی مطلق سے افضل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ نبی کا آغاز ولی کی انتہاء ہے۔‘‘
خط کشید الفاظ پکار رہے ہیں کہ نبی کی ابتدائی حدود کو چھونے سے پہلے ہی ولی کے سفر کی انتہاء ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسے خیالی نبی ولایت کا عالم واقعہ میں کوئی وجود نہیں اور اس کے کوئی معنے نہیں۔ مصنف نے حضرت مسیح اورخضر کے قیاس پر اسے بامعنے بنانا چاہا۔مگر مثال تو کسی ایسے کے ہونی چاہئے جو امتی سے نبی بناہو اورنبی ماناگیا ہو۔ تاکہ وہ قادیانیوں کے دعویٰ کے کام آئے۔
امام شعرانی کی طرف سے وہ بتاتے ہیں کہ صرف شارع نبی کا آنا منع ہے۔غیر شارع