یہ سولی کاقصہ کیا ہے۔پھر اس قتل اورسولی دونوں باتوں کا تقابل کرکے ثابت کردیا ہے کہ یہ سب عناصر شبہ کاشکار ہیں۔جس کا ثبوت ان کے مختلف بیانات ہیں اورپھر سب کے رد میں فرمایا کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا نہ سولی سے اور نہ بغیرسولی کے۔بلکہ اﷲ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا ہے۔ آگے اس کی مزید تاکید میں یہ دلیل دی کہ وہ جس کے یہ قتل اور سولی کادعویٰ کرتے ہیں ،زندہ موجود ہے اور وقت آنے پر روئے زمین کے تمام اہل کتاب اس کی وفات سے پہلے اس پر ایمان لائیں گے۔جن پر وہ قیامت کے دن گواہ ہوگا۔
اس سے واضح ہے کہ سولی کی موت کا لعنت ہونا اوراس لعنت کے روسے حضرت مسیح کا درجہ بلند بتانا اوران کے صلیب سے نہ مرنے پر اہل کتاب کا ایمان لانا۔یہ تینوں باتیں جو مرزا قادیانی نے اپنی کتاب میں زوروشور سے بیان کی ہیں۔قرآن نے ان کانوٹس تک نہیں لیا۔ خود تورات میں جہاں یہ بات درج ہے وہاں مجرموں کی پھانسی اور سولی کا بیان ہے۔جسے مرزا قادیانی نے کچھ سے کچھ بنا دیا ہے۔اب ان کا یہ کہنا کہ اہل کتاب خود اپنی موت کے وقت حضرت مسیح کے سولی سے نہ مرنے پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ کس قدر بے بنیاد ہے۔یہودی جو پہلے ہی ان کی سولی کے قائل نہیں۔ان کا اس پر ایمان لانا کیا معنے اور اس کا کوئی اشارہ قرآن میں کہاں ہے۔ یہاں تو ایسے ایمان کاذکر ہے جس سے یہود ونصاریٰ دونوں محروم ہیں۔ کیونکہ اہل کتاب وہ دونوں ہیں نہ کہ تنہاان میں سے ایک اورایمان بھی وہ ہے جو ہمیشہ سے مومنوں کاشیوہ رہا ہے اور جس کا ایک جزو حضرت مسیح کا سولی سے بچنا نہیں بلکہ ان کا زندہ اورقابل نزول ماننا ہے۔ایسا ایمان سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ حضرت مسیح اﷲ کے بندے اوررسول ہیں۔نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے اور نہ ناجائز باپ کے بیٹے اور نہ مردہ۔
ہم نے اوپر قرآن کی جو آیات دی ہیںان کے مضمون پر غور کیجئے۔اس میں حضرت مسیح کے گیارہ عدد ضمیر ہیں۔ان میں دسویں ضمیر کے تحت موت کا ذکر ہے۔وہ بھی حضرت مسیح کا ضمیر ہے اوراس کی وفات اورقتل کا رد فرمایاگیاہے۔کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ضمیر اپنے سے پہلے قریب تر اسم یا ضمیر کی جگہ کام کرتا ہے۔اس وجہ سے جب نواں ضمیر حضرت مسیح کا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ دسواں ضمیر ان کا نہ ہو اور کسی دور والے اسم کا ہو۔یہ ایک نہایت اہم قاعدہ ہے جس کو انسان اگر کہیں اپنے ناقص علم کی وجہ سے توڑ دے تو یہ اس کی غلطی ہوتی ہے۔لیکن خدا تعالیٰ کے متعلق ایسا گمان کرنا بہت بڑی زیادتی ہے اورپھر یہ فیصلہ بندوں پر چھوڑا کہ وہ چاہیں تو اسے کافر کا ضمیر مانیں اور چاہیں تو نبی کا ۔اس اصول کے تحت جب دسواں ضمیر حضرت مسیح کا ہے تو اس سے ثابت ہے کہ