پھر یہ انداز کس قدرہمدردانہ ہے۔جوان دونوں جماعتوں (لاہوری پارٹی اور ربوہ جماعت) کے درمیان تعلق خاطر ، عقائد کی یک رنگی اورمذہبی اخوت کا پتہ دیتا ہے وہ یہ کہ ہماری دونوں جماعتیں ،قرآن کریم وحدیث شریف کی نصوص کو مشعل راہ یقین کریں۔
(احمدیہ بلڈنگس لاہور کاکتابچہ ص۳)
صحیح اعداد وشمار تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔مگر ایک سرسری اندازے کے مطابق ہمارے خیال میں قادیانیوں کی تعداد ساری دنیا میں چار لاکھ سے زائد نہ ہوگی۔ مسلمان جو ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ان کی تعداداﷲ کے فضل وکرم سے ساٹھ کروڑ ہے۔ یہ سب کے سب مسلمان مرزا قادیانی کو نبی کاذب اورمرتد سمجھتے ہیں۔پھر جو اقوال مرزائے قادیان کی کتابوں میںملتے ہیں۔ ان میں کسی درجہ تناقض، بے ربطی اوربعید از قیاس تاویلیں اورفریب کارانہ توجیہیں پائی جاتی ہیں۔ لاہوری جماعت کا اگر واقعی یہ عقیدہ ہے کہ’’مرزائے قادیان کے دعوائے انکار سے کوئی مسلمان کافر نہیں ہوتاتو پھر امت میں اختلاف برپاکر نے اورکروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو اذیت پہنچانے کے لئے وہ غلام احمد قادیانی کی ’’مجددیت‘‘ اور’’امامت‘‘ کی طرف دعوت کیوں دیتے ہیں۔ ایسی مشتبہ اورمبغوض شخصیت جسے پوری امت مسلمہ انتہائی ناپسند کرتی ہو۔کیا اس قابل ہے کہ اس کی ذات اور مشن کی طرف لوگوں کو بلایا جائے اورقرآن کریم کی تفسیروں تک میں اس کاذکرکیاجائے۔غلام احمد قادیانی کی کتابوں میںآخر وہ کون سی ایسی دینی بصیرت اور اخلاقی حکمت پائی جاتی ہے جس کی امت مسلمہ محتاج ہے اوراس کی شخصیت کی طرف رجوع کئے بغیر دین و اخلاق ادھورے رہتے ہیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو ’’مجددیت‘‘ زیب دیتی ہے کہ آپ نے شاہان بنو امیہ کی بدعتوں اورزیادتیوں کومٹا کر چھوڑا اوراسلامی دنیا محسوس کرنے لگی کہ جیسے خلافت راشدہ کا دور سعید لوٹ آیا ہے۔حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندیؒ جو’’مجددالف ثانی‘‘ کے لقب سے مشہورہیں۔ان کی استقامت، عزیمت،صداقت اورحق گوئی نے خاص ملوکیت کے دور میں بعض دینی معتقدات و اعمال کی تجدید کی اورغیردینی رسموں کو مٹایا۔یہاںتک کہ شہنشاہ جہانگیر کو اس فقیربے نواء اور قلعہ گوالیار کے قیدی کے سامنے جھکنا پڑا۔اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ نے مشرکانہ رسوم وبدعات کے خلاف زبان وقلم سے جہاد کرکے تجدید واحیاء سنت کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی طرف تجدید واحیاء دین کی نسبت کی جاتی ہے اورکی جانی چاہئے۔مگر ان میں سے کسی بزرگ کا یہ درجہ اورمرتبہ نہیں ہے کہ ان