پھٹ کر دوٹکڑے ہوگیا اورزمین لرزی اورچٹانیں تڑک گئیں اورقبریں کھل گئیں اور آگے دفن کا اوردفن کے بعد جی اٹھنے اوردنیا کے آخر تک حضرت مسیح کے رہنے کا بیان ہے۔(متی باب ۳۷ص۳، مرقس باب۱۵ ص۵۰،لوقا باب ۲۳ص۷۹،باب۲۴ص۸۱،یوحنا باب ۱۹ص۱۰۵،۱۰۴، اعمال باب۱۰ ص۱۱۹، باب ۵ص۱۱۲)
جب وہ دن قریب آئے کہ وہ اوپراٹھایاجائے تو ایسا ہوا کہ اس نے یروشلم جانے کو کمر باندھی۔(لوقا باب ۹ص۶۳)لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے شریعت کی بات سنی ہے کہ مسیح ابد تک رہے گا۔( یوحنا باب ۱۲ص۶۷)وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے۔ہر ایک آنکھ اسے دیکھے گی۔
(یوحنا کا مکاشغہ باب۱ص۲۴۲پطرس باب ۴ص۳۲۳)
اس سے مرزاقادیانی کے جھوٹ کی افراط کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس پر مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔صرف یہ دیکھئے کہ حضرت مسیح کے زندہ اٹھائے جانے اور آخری زمانہ تک زندہ رہنے اور پھر نازل ہونے کابیان بہرحال انجیل میں موجود تھا۔جسے اگر قرآن میں ذکر نہ کیاجاتا تو بھی اس کا ماننا ایمان کا جزو ہوتا۔ادھر ہوا یہ کہ قرآن وحدیث میں اسی بات کو دوہرا کر اس کواور زیادہ واضح کردیاگیا ہے۔اسے اب غلط بتانا کتنی بڑی ڈھٹائی ہے اور انکار کی کتنی زیادتی ہے اور لطف یہ ہے کہ اس ڈھٹائی اورانکار والا آدمی نہ صرف مسلمان ہونے کا مدعی ہے بلکہ پیغمبر بھی کہلاتا ہے۔ یہ عقدہ ابھی تک حل نہیں ہوا کہ مرزا قادیانی نے اپنی کس غرض کے تحت انجیل کے اس بیان کا انکار کیا۔شاید اس لئے کہ ان کا مشن ہی جھوٹ پھیلانا تھا اورقرآن کے خلاف جانا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر سولی پرمرنا ہی سولی چڑھنا ہوتا تو قرآن صرف حضرت مسیح کے قتل کا رد کرتا۔مگر اس میں قتل اور سولی دونوں کا رد ہے۔پھر اگر عیسائی ان کی سولی پر موت کے قائل نہ تھے تو وہ ان کا کفارہ کیسے بنے؟ اس کے بعد ایک نظریہ بھی دیکھیں ’’الکاویہ علی الغاویہ‘‘میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایاتھا :
۱… مجھے معلوم ہے کہ میں دنیا کے اختتام تک زندہ رہوں گا۔انجیل پربناس۔
۲… جب خطرہ زیادہ ہوا تو خدا نے جبرائیل اورفائیل اوراوریل کو بھیج کر کھڑکی سے آپ کو اٹھالیا اورتیسرے آسمان پراپنے پاس رکھ لیا۔
۳… میں دنیا سے اٹھایا جاؤں گا اور دوسرا(یہودا) میری جگہ عذاب دیا جائے گا اور میں دنیا کے خاتمہ تک نہ مروںگا۔
۴… سچ جانو! میں نہیں مرا اورمجھ کو اﷲ نے دنیا کے خاتمہ تک محفوظ رکھا ہے۔میرے بعد محمد رسولﷺآئیں گے اور یہ دھبہ اڑائیں گے اورلوگوں پرواضح کریں گے کہ میں زندہ ہوں۔