’’ابوبکر افضل ھذہ الامۃ الا ان یکون نبیا‘‘ابوبکر اس امت سے افضل ہے سوائے اس بات کے کہ وہ نبی ہو۔‘‘
’’ابوبکر افضل الناس بعدی الاان یکون نبیا‘‘ابوبکر میرے بعد سب لوگوں سے اچھا ہے۔سوائے اس بات کے کہ وہ نبی ہو۔‘‘
سوچئے!یہاں ’’آئندہ اورکوئی نبی اس امت سے ہوجائے تو اس سے افضل نہیں ہو ں گے۔‘‘یہ کس لفظ کے معنے ہیں؟ اورپھر یہ کہ جہاں امت میں نبی آنے ہوں وہاں امت کیسی اور اس میں کسی کاافضل اورسب سے افضل ہونا کیا معنی؟ ۔امت تو ہوگی بعد کے نبی کی اورافضل ہوگا امت کا نبی یا وہ جسے بعد والا نبی افضل ٹھہرائے گا۔
اورہوسکتا ہے کہ وہ سب پہلی امتوں کے افضل لوگوں سے بڑھ جائے۔ اگر بعد میں یا باہر کوئی اورنبی ہوسکتا ہوتو ایک جگہ کے نبی کے لئے یہ کہنے کاموقع نہیں آسکتا کہ فلاں آدمی سب امت سے یا سب لوگوں سے افضل ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے کسی نبی کی طرف سے اس کے کسی صحابی کے حق میں ایسی کسی فضیلت کا فیصلہ وقوع میں نہیں آیا۔رسول اکرمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا تھا اور نہ کوئی امت ہونی تھی۔ نہ افضل نہ غیر افضل۔ اس لئے آپؐ نے قطعیت کے ساتھ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے حق میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس امت میں ابوبکرؓ سب سے افضل ہیں۔ گویا یہ حدیث کسی اورامت اورنئے نبی کی آمد کی جڑ کاٹ رہی ہے۔مگر ہمارے قادیانی قاضی اس سے مرزاقادیانی کا بھرم قائم کر رہے ہیں:
چہ دلاوراست دزدے کہ بکف چراغ دارد
پھر یہیں سے حضرت مسیح کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔مرزا قادیانی اوران کے امتی مسیح آئندہ کی نبوت کو بڑے زوروشور کے ساتھ منواتے ہیں۔مگر ان کے نزول کا انکار کر کے ان کی نبوت کو مرزاقادیانی کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔اس حدیث میں مطلقاً حضرت ابوبکرصدیقؓ کو سب لوگوں سے افضل فرمایاگیا اورسب لوگوں میں حضرت مسیح کے زمانہ کے صحابی بھی شامل ہیں۔ اس لئے کہ جو نبی کی زیارت وہ حاصل کریں گے وہ ابوبکرؓ اوران کے ساتھیوں کو بھی حاصل تھی۔ اس کے علاوہ عقیدہ وعمل میں وہ صحابہؓ سے کسی درجہ میں بھی نہیں بڑھیںگے۔حالانکہ نئے نبی کو ماننے والا ان سب سے بڑھے بغیر نہیں رہتا۔گویا وہ پرانے نبی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ختم نبوت کا ضابطہ نئے نبیوں کے لئے ہے کہ وہ نہیں آسکتے۔پہلے زمانہ کا ایک نبی جو آخری نبی کی آمد پرزندہ تھا