ہے۔ مگر جب مال کو دیکھے اس وقت اختیار ہے خواہ معاملہ رکھے یا انکار کر دے۔
معاملہ(۲۶):بنجارہ کچھ غلہ لایا اس کو شہر میں آنے دو، اس وقت خرید کرو۔ شہر سے باہر ہی باہر جا کر معاملہ کر لینا اچھا نہیں۔ اس میں کبھی تو اس کو دھوکہ دیا جاتا ہے کہ شہر میں اس نرخ کو فروخت نہ ہوگا اور شہر والوں کا بھی اس میں نقصان ہے کہ سب اس کے محتاج ہو گئے۔ جتنے کو چاہے فروخت کرے۔ اور ایک آدمی اگر سودا چکاتا ہو اور ابھی بائع نے اس کو نامنظور نہیں کیا بلکہ منظوری ونامنظوری دونوں کا احتمال ہے تو تم جا کر اس کے سودے کو خراب کر کے خود مت لینے لگو۔ البتہ جب وہ صاف انکار کر دے اس وقت خریدنے میں مضائقہ نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نیلام میں کسی کی بولی پر بولی بولنا کچھ ڈر نہیں۔ کیونکہ خود بائع نے ابھی اس بولی کو منظور نہیں کیا اور کسی کو دھوکہ دینے کو چیز کے دام مت بڑھاؤ کہ دوسرا آدمی اور زیادہ بولی بول دے اور وہ چیز اس کے گلے پڑ جاوے۔ اور کوئی دیہاتی اپنی چیز شہر میں فروخت کرنے آوے سو خواہ مخواہ خیر خواہی جتلانے کو اس کو بیچنے سے مت روکو کہ میاں ہمارے پاس رکھ جاؤ ہم موقع پر گراں قیمت سے بیچ دیں گے، بلکہ اس کو بیچنے دو۔ شہر والوں کو کسی قدر کفایت سے مل جاوے گی۔ البتہ اگر اس کا صریح نقصان ہوتا ہو تو مضائقہ نہیں۔
اگر گائے بکری بیچنا ہو خریدار کو دھوکہ دینے کی غرض سے ایسا مت کرو کہ کئی وقت دودھ نہ نکالو تاکہ تھن کو دودھ سے بھرا دیکھ کر خریدار دھوکہ میں آجاوے اور زیادہ دام کو خرید کر پیچھے پچھتاوے۔
معاملہ(۲۷): خودرَو گھاس کا بیچنا درست نہیں اگرچہ تمہاری مملوکہ زمین میں ہی کھڑی ہو، اسی طرح پانی۔
معاملہ(۲۸): کوئی ایسی کاروائی مت کرو جس سے خریدار کو دھوکہ ہو۔
----------------------
{۲۶} عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لاتلقوا الرکبان لبیع ولایبع بعضکم علی بیع بعض ولاتناجشوا ولایبع حاضر لباد ولاتصروا الابل والغنم۱۲ متفق علیہ{۲۷} لایباع فضل الماء لیباع بہ الکلأ۱۲ متفق علیہ {۲۸} افلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس من غش فلیس منی۱۲ مسلم