بیعت کند وآنچہ شرائط است بموکلہ بفرماید وخرقہ دامنے دہد واگر نسواں حاضر است در پردہ مرید کند بیعت دست نہ کند چنانچہ عہد بارجال کند باعورت نہ کند۔ وہم در کتاب مذکور است کہ ایں در حق مردان است کہ مارا قبول کردی وبعورت امر و نہی بسند است‘‘۔
فصل سماع میں: ہرچند یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ لیکن اگر مانعین کے دلائل سے بالکل قطع نظر کر کے اس کو جائز سمجھا جاوے تب بھی تو جواز کے بہت سے شرائط ہیں۔ انصاف سے دیکھنا چاہئے کہ اس زمانے میں کون مجلس ان آداب وشرائط کے ساتھ ہوتی ہے۔ نہ اخوان ہیں ،نہ زمان، نہ مکان۔ صرف ایک رسم رہ گئی ہے ہر قسم کے لوگ مختلف نفسانی اغراض سے جمع ہوتے ہیں اور بزرگوں کے طریقہ کی سخت بدنامی ہوتی ہے۔ اس مقام پر صرف حضرت سلطان المشائخ قدس اﷲ سرہ‘ کا ارشاد فوائد الفواد سے نقل کئے دیتے ہیں:
چند چیز موجود شود سماع آں گاہ شنود۔ آں چیز مسمع است ومسموع ومستمع وآلہ سماع است۔ فرمودند مسمع گویندہ است می باید کہ مرد تمام باشد و کودک و عورت نباشد، اما مسموع آنچہ مے گوید باید کہ ہزل وفحش نباشد، واما مستمع آنکہ می شنود باید بحق شنود مملو باشد از یاد حق، واما آلہ سماع وآن مزامیر است چوں چنگ ورباب ومثل آن باید کہ درمیان نہ باشد۔ ایں چنیں سماع حلال است۔
اب آگے انصاف درکار ہے۔ اور اگر ان شرائط سے بھی قطع نظر کی جاوے تب بھی سمجھنا چاہئے کہ سماع میں ایک خاص اثر ہے کہ کیفیت غالبہ کو قوت دیتا ہے۔ اس زمانے میں چونکہ اکثر نفوس میں خبث وحُبِ غیر اﷲ غالب ہے اسی کو غلبہ ہوگا پھر جب حب غیر اﷲ حرام ہے تو اس کے سبب کو کیا فرمائیے گا؟
فصل: خواجہ عبید اﷲ احرار رحمہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ استغراق میں ترقی نہیں ہوتی کیونکہ ترقی دوام عمل سے ہے اور اس میں عمل کا انقطاع ہوجاتا ہے۔(جواہر غیبی از رشحات)
فصل: شارح گلشن راز فرماتے ہیں کہ محض اہل کمال کی تقلید سے بدون غلبۂ حال کے خلاف شریعت کلمات منہ سے نکال کر کافر مت بنو۔ صاحب گلشن راز کا شعر ہے ؎