تعالیٰ لَنْ تَرَانِیْ۔
غرض قرآن وحدیث وکلام اہل حق سے واضح ہے کہ رؤیت ذات حق تعالیٰ کی آخرت میں بلاکیف واقع ہوگی اور دنیا میں ممتنع ہے۔ اور بعض اکابر کے کلام میں جو امکان کا کلمہ کہا ہے اور امتناع کو معتزلہ کا مذہب قرار دیا ہے اس سے مراد امکان وامتناع عقلی ہے نہ شرعی۔ اور ہمارا مدعا امتناع شرعی ہے بوجہ ورود نصوص عدم الوقوع کے دنیا میں ، اور امتناع عقلی مدعا نہیں ورنہ آخرت میں کیسے وقوع ہوتا۔ اس لئے کہ مستحیل عقلی ممکن نہیں ہوسکتا چہ جائے وقوع۔ فقط
فصل: ایک غلطی یہ کہ شیخ کو یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بحیثیت جسد عنصری خدا سمجھنا، یہ اعتقاد صریح کفر ہے۔ اس سے اﷲ تعالیٰ کا تغیر ، تبدّل، حدوث ، احتیاج، تقلید، حلول واتحاد ہزاروں خرابیاں لازم آتی ہیں۔ ظاہری جسد ظاہری حواس سے محسوس ہے وہاں تو اس قدر تنزیہ ہے کہ حواس باطنی اور عقل کی بھی رسائی نہیں۔ خیال وفکر میں جو چیز آوے اﷲ تعالیٰ اس سے بھی منزہ ہے۔ عمرو بن عثمان مکی فرماتے ہیں:
کل ما توہمہ قلبک او سنح فی مجاری فکرتک او خطر فی معارضات قلبک من حسن او بہاء او انس او جمال او ضیاء او شبح او نور او شخص او خیال فاﷲ تعالٰی بعید من ذلک الا تسمع الی قولہ تعالٰی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَّھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔
پانچواں باب موانع طریق میں
یوں تو جتنے معاصی اور تعلقات ما سوی اﷲ ہیں سب اس راہ کے رہزن ہیں ، مگر چند ضروری چیزوں کو چند فصول میں بیان کیا جاتا ہے۔
فصل: ایک مانع مخالفت کرنا سنت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے اس کا بیان اوپر گذر چکا ہے۔ افسوس اس زمانے میں رسوم وبدعات کی بڑی کثرت ہے اور تصوف اسی رسوم کا نام رکھا گیا ہے۔
قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: یوشک ان یأتی علی الناس زمان لایبقی من