سے ہے راضی رہنااس پر جو اس کیلئے اﷲ نے مقرر کر دیا)
ماہیت:۔ حکم قضا پر اعتراض نہ کرنا، نہ زبان سے، نہ دل سے۱؎۔ بعض اوقات اس کا یہاں تک غلبہ ہوتا ہے کہ تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ بھی آثار محبت سے ہے اس کی تحصیل کا جدا گانہ طریق نہیں ہے۔
فصل نمبر۱۳: نیت وارادہ میں
قال اﷲ تعالیٰ: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰۃِ وَالعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ‘۔ وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: انما الاعمال بالنیات۔ متفق علیہ
(اور مت دُتکارو اے محمد! ان کو جو پکارتے رہتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام (یعنی ہر وقت) چاہتے ہیں خاص ذات باری تعالیٰ کو ۔ اور فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعمال کا اعتبار تو نیت سے ہے)
ماہیت:۔ دل کا ابھرنا ایسی چیز کی طرف جس کو اپنی غرض اور نفع کے موافق سمجھتا ہے۔
طریق تحصیل:۔ اس چیز کی مثلاً عمل صالح وسلوک طریق آخرت کے منافع ومصالح کی معرفت حاصل کر کے ان میں غور کرے، دل کو حرکت پیدا ہوگی۔
فصل نمبر۱۴:اخلاص میں
قال اﷲ تعالیٰ: وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ، الآیۃ۔ وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: ان العبد اذا صلی فی العلانیۃ فأحسن وصلی فی السر فاحسن قال اﷲ تعالٰی ھٰذا عبدی حقا۔ رواہ ابن ماجۃ
(فرمایا اﷲ تعالیٰ نے: اور نہیں حکم ہوا ان کو مگر اس کا کہ عبادت کریں اﷲ تعالیٰ کی خالص کرنے والے ہوں اس کے واسطے دین کو اور طرف سے پھرے ہوئے ہوں۔ اور فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب آدمی سب کے سامنے بھی نماز اچھی طرح پڑھتا ہے اور تنہائی میں بھی تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرا بندہ ہے ٹھیک ٹھیک)
ماہیت:۔ اپنی طاعت میں صرف اﷲ تعالیٰ کے تقرب ورضا کا قصد رکھنا اور مخلوق کی خوشنودی و
----------
۱؎ عن ابی علی الدقاق یقول: لیس الرضا ان لاتحس بالبلاء ۔ انما الرضاء ان لاتعترض علی الحکم والقضاء ۱۲ قشیریہ