ہے تو وہ کس طرح حلال ہوگا۔
معاملہ(۲۳): بعض لوگ کوئی چیز خاص ایک معین مقدار روپیہ سے خرید کرتے ہیں اور جب قیمت نہیں بن پڑتی تو اس چیز کو اسی بائع کے ہاتھ کچھ کم قیمت میں بیچ ڈالتے ہیں۔ سو چونکہ بائع کو اس بچت کا کوئی حق نہیں۔ اس لئے یہ داخل سود ہو کر ممنوع ہوگیا۔ البتہ اگر ایسی ضرورت پیش آوے تو اس کی تدبیر یہ ہے کہ اصل بائع تھوڑی دیر کے لئے مشتری کو بقدر قیمت قرار داد سابق روپیہ بطور قرض دے دے اور مشتری اس روپیہ کو اصل قیمت میں ادا کردے۔ اس کے بعد وہ چیز کم قیمت میں بائع کے ہاتھ بیچ ڈالے اور جو باقی رہے وہ اس کے ذمّے قرض رہے گا۔ مثلاً دس روپیہ کو تم نے ایک گھڑی خریدی۔ اور جب روپے کا بندو بست نہ ہوسکا تو اسی بائع کے ہاتھ فرض کرو کہ آٹھ روپیہ کو بیچ ڈالی۔ یہ معاملہ سود اور ناجائز ہے۔ ضرورت پڑے تو یوں کرو کہ دس روپے بائع سے قرض لے کر پہلے گھڑی کی قیمت ادا کردو ۔ اب وہ گھڑی اس کے ہاتھ جتنی کمی پرچاہو بیچو۔ جتنے کو بائع نے خریدا اتنا قرض تو ابھی ادا ہوا اور باقی تمہارے ذمے رہا۔
معاملہ(۲۴):جب تک پھل کام میں آنے کے لائق نہ ہو اس کا خریدنا ،بیچنا ممنوع ہے۔ کیونکہ معلوم نہیں پھل رہے یا جاتا رہے۔
معاملہ(۲۵): صرف بیجک آنے پر مال فروخت مت کرو۔ جب تک تمہارے قبضے میں نہ آجاوے۔ اور جب بائع کے قبضے میں آجاوے تو بیجک دیکھ کر مشتری کو خریدنا درست
---------------
{۲۳} اخرج عبد الرزاق فی مصنفہ اخبرنا معمر والثوری عن ابی اسحاق السبیعی عن امرأتہ انھا دخلت علی عائشۃ فی نسوۃ فسألتھا امرأۃ فقالت یا ام المؤمنین کانت لی جاریۃ فبعتہا من زید بن ارقم بثمان مائۃ ثم ابتعتھا منہ بست مائۃ فنقدتہ الست مائۃ وکتبت علیہ ثمان مائۃ۔ فقالت عائشۃ :بئس ما اشتریت و بئس ما اشتری اخبری زید بن ارقم انہ قد ابطل جہادہ مع رسول اﷲ الا ان یتوب۔ فقالت المرأۃ لعائشۃ ارأیت ان اخذت رأس مالی و رددت علیہ الفضل فقالت فمن جاء ہ موعظۃ من ربہ فانتھی فلہ ما سلف۱۲{۲۴} نھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم عن بیع الثمار حتی یبدو صلاحہا نھی البائع والمشتری۱۲ متفق علیہ ۔ لو بعت من اخیک ثمرا فأصابتہ جائحۃ فلایحل لک ان تأخذ منہ شیئا بم تأخذ مال اخیک بغیر حق۱۲مسلم {۲۵} من ابتاع طعاما فلایبعہ حتی یستوفیہ۱۲ متفق علیہ۔ قال ابن عباس: ولااحسب کل شیء الا مثلہ۱۲ متفق علیہ