بے اصل ہیں۔ کتب فن میں اس قدر مذکور ہے کہ شیخ کی صورت اور اس کے کمالات کے زیادہ تصور کرنے سے اس سے محبت پیدا ہوجاتی ہے اور نسبت قوی ہوتی ہے اور قوت نسبت سے طرح طرح کے برکات ہوتے ہیں۔
اور بعض محققین نے تصور شیخ میں صرف یہ فائدہ فرمایا ہے کہ ایک خیال دوسرے خیال کا دافع ہوتا ہے ، اس سے یکسوئی میسر ہوجاتی ہے اور خطرات دفع ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ کلیم اﷲ صاحب قدس سرّہ نے کشکول میں یہی حکمت فرمائی ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں
وہر چند برزخ لطیف تر بود واز معانی معقولہ بود کار نیکو بود وہرچند کثیف بود واز صور مرئیہ بود کار زبون تر بود۔ (جواہر غیبی)
بہرحال! اس میں جو کچھ حکمت و فائدہ ہو ، راقم کا تجربہ ہے کہ یہ شغل خواص کو تو مفید ہوتا ہے اور عوام کو سخت مضر کہ صورت پرستی کی نوبت آجاتی ہے۔ اسی واسطے امام غزالی۱؎ؒ وغیرہ محققین نے عوام اور اغبیاء کیلئے ایسے اشغال کی تعلیم سے منع فرمایا ہے جس سے کشف وغیرہ ہوتا ہے۔ اس لئے عوام کو تو بالکل اس سے بچانا چاہئے اور خواص بھی اگرکریں تو احتیاط کی حد تک محدود رکھیں۔ اس کو حاضر ناظر اور ہر وقت اپنا معین دستگیر نہ سمجھ لیں۔ کیونکہ کثرت تصور سے کبھی صورتِ مثالیہ روبرو حاضر ہوجاتی ہے کبھی تو وہ محض خیال ہوتا ہے اور کبھی کوئی لطیفۂ غیبی اس شکل میں متمثل ہوجاتا ہے۔ اور شیخ ۲؎کو اکثر اوقات خبر تک بھی نہیں ہوتی۔ اس مقام پر اکثر ناواقف لوگوں کو لغزش ہوجاتی ہے۔
فصل: عورتوں کو دست بدست بیعت نہ کرنا چاہئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کو بیعت میں ہاتھ نہیں لگایا۔اجنبی عورت کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔ صاحب محبوب السالکین می نویسد:
’’بیعت کنانیدن نسواں ایں است اگر نساء غائب است بوکالت محارم نسبی یا رضاعی
-------------
۱؎ یجب علی الشیخ ان یتفرس فی المرید فان لم یکن ذکیا فطنا متمکنا من اعتقاد الظاہر لم یشغلہ بالذکر والفکر بل یردہ الی الاعمال الظاہرۃ والاوراد المتواترۃاو یشغلہ بخدمۃ المتجردین، الخ۱۲ احیا ء ۲؎ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے وقت اصرار زلیخا کے حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت دیکھی اور شرما گئے۔ یقینا وہ حضرت یعقوب علیہ السلام نہ تھے ، اگر حضرت یعقوب علیہ السلام ہوتے تو ان کو حضرت یوسف علیہ السلام کا مصر میںمعلوم ہوجانا چاہئے۔ پھر پریشان ہونا اور بیٹوں سے جستجو کرنے کیلئے ارشاد فرمانا ،کیا معنی؟ خوب سمجھ لو۔