مقدمۂ مصنّف
از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
اما بعد!اس زمانہ میں اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام نے صرف نماز و روزہ اور چند غیبی خبریں کہ قیامت میں کیا کیا ہوگا، بہشت میں حوریں اور دوزخ میں سانپ بچھو ہیں بتلائی ہیں۔ اور انسان کے باقی ظاہری و باطنی حالات متعلقہ سے اس کو کچھ تعرض نہیں۔ اﷲ و رسول کو جو جیسا چاہو سمجھو ، جو چاہو معاملہ کرو۔ تجارت جس طرح چاہو کرو، لوگوں سے جس طور پر چاہو برتاؤ کرو، جو چاہو کھاؤ، جو چاہو پیو، جو چاہو پہنو، نشست وبرخاست ملاقات ومعاشرت کے طریقے جو چاہو اختیار کرلو، اپنے نفس کو جن صفات سے چاہو متصف رکھو، غرض تم کو اور امور میں ہر طرح آزادی ہے، اوراگر پابندی کا خیال آیا تو اُصول تجارت میں غیر قوموں کی تقلید کرو، طرز معاشرت قدیم یا جدید فلاسفروں سے حاصِل کرو، مقامات نفس میں اَن پڑھ لوگوں سے جو خدائی کے دعوے میں بھی نہ رکتے ہوں مدد لو۔
غرض! اس میں نہ اُلُوہیت و رسالت کی تنظیم ہے، نہ معاملات کے اصول کی تعلیم ، نہ اخلاق و آداب کی تفہیم، نہ مقاماتِ نفس کی تکمیل و تتمیم۔ اور اس خیال باطل کے ایسے برے برے آثار مرتب ہوئے کہ خدا کی پناہ ۔
ایک اثر مخالفین پر یہ ہوا کہ اسلام پر تعلیم کے ناکافی ہونے کا دھبّہ لگایا۔ ایک اثر نَو تعلیم یافتہ نوجوانوں پر یہ ہوا کہ بوجہ نا حقیقت شناسی کے یہ شبہ ان کے دل میں جم گیا اور اپنے کو بعض امور میں تہذیب جدید کا محتاج سمجھا اور زبان سے یا دل سے یا طرزعمل سے غیر طریقوں کو اپنے طریقے پر