فصل:اور اگر شیخ کی صحبت سے قلب میں کچھ تاثیر معلوم ہوتی ہوتو اس کی صحبت کو غنیمت سمجھے اور اس کے عشق ومحبت کو دل میں محکم کرے اور اس کی پوری پوری اطاعت کرے اور اس کو خوش رکھے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اس کے تکدر کا باعث ہو کہ اس سے فیوض بند ہوجاتے ہیں۔ سورئہ حجرات کی اول کی آیتوں میں آداب نبویہ بتلائے گئے ہیں، شیخ چونکہ خلیفہ کامل نبی کا ہے اس کی محبت وادب کا بھی وہی حکم ہے۔
فصل: مشہور ہے کہ اپنے پیر کو سب سے افضل سمجھے۔ ظاہراً اس میں اشکال ہے ، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ
(ہر صاحب علم سے بڑھ کر کوئی ذی علم ہے)
پس سمجھنا چاہئے کہ اگر سکر و محبت میں ایسا سمجھا تو معذور ہے۔ اور اگر غلبۂ سکر نہیں ہے تو اتنا سمجھے کہ میری تلاش سے زندہ لوگوں میں اس سے زیادہ نفع پہنچانے والا شخص مجھ کو نہیں مل سکتا۔ ہٰکذا قال سیدی سندی مرشدی شیخی الحاج الحافظ محمد امداد اﷲ دامت برکاتہم۔
فصل: شیخ سے اگر احیاناً کوئی فعل قابل اعتراض سرزد ہوجائے تو اعتراض نہ کرے۔ حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کا واقعہ یاد کرے ؎
آں پسر را کش خضر ببرید حلق
سرّ آنرا در نیابد عام خلق
گر خضر در بحر کشتی را شکست
صد درستی درشکستِ خضر ہست
یا تو تاویل کر لے یا یوں سمجھ لے اولیاء معصوم نہیںہوتے ہیں اور توبہ سے سب معاف ہوجاتا ہے۔ مگر یہ اس شیخ کیلئے ہے جو شرع کا پابند صاحب استقامت ہو اور اتفاقاً اس سے کوئی فعل ہوجاوے۔ اور اگر اس نے فسق وفجور کو عادت بنا رکھا ہے وہ ولی نہیں ، اس کے قول و فعل کی تاویل کچھ ضرور نہیں اس سے علیحدگی اختیار کرے۔