کافی القاب تھے۔ پھر خواص کو زہادو عباد کہنے لگے، پھر جب فتن وبدعات کا شیوع ہوا اور اہل زیغ بھی اپنے کو عباد وزہاد کہنے لگے اس وقت اہل حق نے امتیاز کیلئے صوفی کا لقب اختیار کیا اور دوسری صدی کے اندر اس لقب کی شہرت ہوگئی۔ (قشیریہ)
دوسرا باب ریاضت ومجاہدہ میں
اس میں دو رکن ہیں: رکن ِاوّل مجاہدئہ اجمالی میں!
جاننا چاہئے کہ اصول اس کے چار امور ہیں: قلت کلام، قلت طعام، قلت منام، قلت اختلاط مع الانام۔ ان سب امور میں مرتبۂ اوسط حسب تعلیم شیخ کامل ملحوظ رکھے۔ نہ اس قدر کثرت کرے جس سے غفلت وقساوت پیدا ہو ، نہ اس قدر قلت کرے جس سے صحت وقوت زائل ہو جاوے۔ خلا۱؎صہ یہ کہ نفس کے مطالبات دو قسم کے ہیں: حقوق وحظوظ۔ حقوق وہ جس سے قوامِ بدن و بقائے حیات ہے، حظوظ جو اس سے زائد ہے۔ حقوق کو باقی اور حظوظ کو فانی کرے۔
فائدہ عظیمہ:سالکانِ طریق نے حزن وغم کو اعلیٰ درجہ کا مجاہدہ قرار دیا ہے کہ اس سے نفس کو پستی وشکستگی حاصل ہوتی ہے جو کہ آثار عبودیت سے ہے اور یہ امر مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ سالک کو جو قبض پیش آجاتا ہے وہ علامت اس کے بعد وطرد کی نہیں، کیا عجب اس کا تصفیہ و مجاہدہ مقصود ہو، ہرگز اس کی شکایت نہ کرے، سرِ تسلیم خم کر کے اپنا کام کرتا رہے ؎
باغباں گر پنجروزے صحبت گل بایدش
بر جفائے خار ہجراں صبر بلبل بایدش
اے دل! اندر بند زلفش از پریشانی منال
مرغ زیرک چوں بدام افتد تحمل بایدش
ابو علی دقاق فرماتے ہیں: صا۲؎ حب الحزن یقطع من طریق اﷲ تعالٰی فی شہر مالایقطعہ من فقد حزنہ سنین۔ البتہ فکرلایعنی قلب کا ستیاناس کردیتی ہے۔
------------
۱؎ جواہرِ غیبی۱۲ ۲؎ حدیث شریف میں ہے کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم متواصل الاحزان دائم الفکرۃ لیست لہ راحۃ۱۲ ترمذی ۳؎ قشیریہ