ساقط اور معاف ہوجاتے ہیں۔ یہ اعتقاد صریح کفر ہے ۔ جب تک کہ ہوش وحواس قائم رہیں ہرگز احکام شرع معاف نہیں ہوسکتے۔ البتہ بے ہوشی کی حالت میں معذور ہے۔ حضرت ابراہیم بن شیبان فرماتے ہیں:
علم الفناء والبقاء یدور علی اخلاص الوحدانیۃ وصحۃ العبودیۃ وماکان غیر ھذا فھوالمغالیط والزندقۃ۔(قشیریہ)
(علم فنا وبقاء یعنی علم تصوف کا مدار وحدانیت کے اخلاص وعبودیت کے ٹھیک کرنے پر ہے اور جو اس کے سوا ہے وہ سب دھوکہ بازی اور بددینی ہے)
کسی نے حضرت جنیدؒ سے ذکر کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو واصل ہو گئے اب ہم کو ان ظاہری احکام کی کیا حاجت ہے۔ آپ نے فرمایا بے شک واصل تو ہو گئے مگر جہنم واصل ہوئے، خدا رسیدہ نہیں ہوئے۔ اور ارشاد فرمایا کہ زنا کرنے والا اور چوری کرنے والابہتر ہے ایسے شخص سے جس کا یہ اعتقاد ہو اور فرمایا کہ اگر میں ہزار برس زندہ رہوں بلا عذر شرعی وظیفہ بھی ناغہ نہ کروں۔(یواقیت)
فصل: ایک غلطی یہ ہے کہ اپنے کمالات کا صراحۃً یا اشارۃً دعویٰ افتخار کے ساتھ ہوتا ہے، اور دوسروں کی تحقیر وتوہین۔ قال اﷲ تعالیٰ: فَلَا تُزَکُّوْا اَنْفُسَکُمْ۔ البتہ اگر اظہار نعمت کی غرض سے کوئی بات موقع کی کہی جاوے اور اس کو اپنا کمال نہ سمجھیں محض فضل خداوندی سمجھیں مضائقہ نہیں۔ قال اﷲ تعالیٰ: وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔
بعض جہلا ایک عجیب قسم کا دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ ہماری نسبت ایسی قوی ہے کہ گناہ کرنے سے بھی اس میں فتور نہیں آتا، اور بعضے کہتے ہیں کہ ہم کو لونڈوں رنڈیوں کے گھورنے سے ترقی ہوتی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نسبت جس کو معصیت سے بقا یا ترقی ہو شیطانی نسبت ہے اور ایسی ترقی کو مکر واستدراج کہتے ہیں، خدا کی پناہ۔ ایسے شخص کے راہ پر آنے کی کوئی امید ہی نہیں، عمر بھر اسی دھوکے میں پھنسا رہتا ہے۔ رشحات میں ہے:
حضرت خواجہ عبید اﷲاحرار فرمودند کہ مکر الٰہی دو ہست یکے بہ نسبت عوام ،دیگرے بہ