اس کو بعد ایمان واسلام کے ارشاد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علاوہ عقائد ضروریہ واعمال ظاہرہ کے کوئی اور چیز بھی ہے اس کانام اس حدیث میں احسان آیا ہے۔ اور اس کی حقیقت بیان فرمانے سے معلوم ہوا کہ وہ یہی طریق باطن ہے۔ کیونکہ بدون اس طریق کے ایسی حضوری ہرگز میسّر نہیں ہوتی۔ اور لاکھوں معتبر آدمیوں کی شہادت موجود ہے جس کے غلط ہونے کا عقل کو احتمال نہیں ہوسکتا کہ ہم کو اہل باطن کے پاس بیٹھنے سے ایک نئی حالت اپنے باطن میں عقائد وفقہ کے علاوہ محسوس ہوتی ہے جو پہلے نہ تھی۔ اوراس حالت کا اثر یہ ہے کہ طاعت کی رغبت اور معاصی سے نفرت ، عقائد کی پختگی روز افزون ہے۔ یہ بھی نہایت قوی دلیل ہے کہ طریق باطن بھی کوئی چیز ہے۔
اس کے علاوہ بزرگوں کے کشف وکرامات اس درجہ منقول ہیں کہ جن کی انتہا نہیں اگرچہ یہ کوئی قوی دلیل نہیں مگر استقامت شرع کے ساتھ اگر خرق عادات ہوں تو صاحب خوارق کے کامل ہونے پر اطمینان بخش ضرور ہوتے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے قاضی ثناء اﷲ کے ارشاد کا۔
بہر حال! ہمت کا مقتضا تو یہ ہے کہ صاحب ذوق بنو، اگر اتنی توفیق نہ ہو تو خدا کے لئے انکار تو نہ کرو۔
پہلا باب بیعت میں
عادۃ اﷲ یوں ہی جاری ہے کہ کوئی کمال مقصود بدون استاد کے حاصل نہیں ہوتا ۔ توجب اس راہ میں آنے کی توفیق ہو استادِ طریق کو ضرور تلاش کرنا چاہئے جس کے فیض تعلیم وبرکت صحبت سے مقصود حقیقی تک پہنچے ؎
گر ہوائے ایں سفر داری دلا
دامنِ رہبر بگیر و پس بر آ
در ارادت باش صادق اے فرید
تا بیابی گنج عرفاں را کلید
بے رفیقے ہر کہ شد در راہ عشق
عمر بگذشت ونشد آگاہِ عشق
چونکہ بدون علامت تلاش ممکن نہیں اس لئے اس مقام پر شیخ کامل کے شرائط و علامات مرقوم