جاتا۔ اور اکثر ادھار بھی رہ جاتا ہے۔ یہ بالکل سود ہے۔ ایسی صورت میں جس طرف چاندی کم ہے اس میں کچھ پیسے بھی ملائے جاویں۔ چاندی چاندی برابر ہوجائے گی زائد چاندی کے عوض میں پیسے ہوجاویں گے۔ اور ادھار کی اگر کوئی ضرورت ہو تو صاحب معاملہ ہی سے جداگانہ قرض لے کراس معاملے کو طے کر لیں پھر اس کا قرض بعد میں ادا کریں۔
فرع:اکثر ایسا کرتے ہیں کہ روپیہ دے کر آٹھ آنے پیسے اب لے لئے اور آٹھ آنے ایک گھنٹے کے بعد لے لئے یہ بھی جائز نہیں۔ اگر ایسی ہی ضرورت ہو تو روپیہ امانۃً اس کے پاس رکھا دیں۔ جب اس کے پاس پورے پیسے آجاویں تب یہ معاملہ مبادلے کا کریں۔
معاملہ(۲۰):اگر تم خراب گیہوں کے عوض میںاچھے گیہوں لینا چاہتے ہو اور دوسرا شخص برابر سرابر نہیں دیتا تو یوں کرو کہ اپنے گیہوں ایک روپیہ کو مثلاً اس کے ہاتھ بیچ ڈالو۔ پھر جتنے گیہوں وہ تم کو دے وہ اس روپے کے عوض میں جو اس کے ذمہ تمہارا قرض ہے اس سے خرید لو۔
معاملہ(۲۱):اگر چاندی یا سونے کا جڑواؤ زیور یا جس میں اور کوئی چیز ملی ہو چاندی یا سونے کے بدلے میں یعنی چاندی کا زیور چاندی کے بدلے اور سونے کا زیور سونے کے بدلے خریدنا یا بیچنا چاہو تو یہ مبادلہ اس وقت ہے جب زیور میں چاندی یا سونا یقینا کم ہو اور داموں کی چاندی یا سونا زائد ہو۔ اگربرابر یا زائد ہو نے کا گمان ہو تو درست نہیں۔
معاملہ(۲۲): اگرکوئی شخص تمہارا مقروض ہو اور اسی حالت میں وہ تم کو ہدیہ دے یا دعوت کرے اگر پہلے سے راہ ورسم باہمی جاری نہ ہو تو ہرگز مت قبول کرو۔ اسی سے رہن کی آمدنی کا حال معلوم کرو۔ کیونکہ راہن تمہارا قرضدار ہے اور قرض کے دباؤ میں تم کو انتفاع کی اجازت دیتا
----------------
{۲۰} جاء بلال الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بتمر برنی فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: من این ہذا؟ قال کان عندنا تمر ردی فبعت منہ صاعین بصاع۔ فقال: اوہ ، عین الربواعین الربوا لاتفعل ولکن اذا اردت ان تشتری فبع التمر ببیع آخر ثم اشتر بہ۱۲ متفق علیہ {۲۱} عن فضالۃ بن عبید قال اشتریت یوم خیبر قلادۃ باثنی عشر دینارا فذکرت ذلک للنبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقال: لاتباع حتی تفصل ۱۲ مسلم {۲۲} عن انس قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : اذا اقرض احدکم قرضا فاہدی الیہ او حملہ علی الدابۃ فلایرکبہ ولایقبلہا الا ان یکون جری بینہ وبینہ قبل ذلک ۱۲ ابن ماجہ و بیہقی