اے درویش محک معیار ایں کار کتاب وسنت است وسیر سلف کہ اہل اقتدا بودند نہ اجازت مجرد ومقام متبرک کہ فلاں فرزند درویش است درجائے آبا واجداد خود نشستہ وچیزے کہ از شان شیخی مخالف معیار است آں فاسد وباطل یعنی اگر قول و فعل شیخ مخالف کتاب وسنت واجماع بود ہیچ نباشد آن شیخ لائق شیخی ومقتدائی نبود ہر کہ بدو اقتدا کند بمقصود نہ رسد۔
بلکہ اس کو چھوڑ کر دوسرے کامل سے بیعت کرے۔ شیخ سعد الدین فرماتے ہیں :
’’اگر از نادانی خود بجاہل یا اہل بدعت ارادت آورد تجدید ارادت کند واز دست او خرقہ پوشد تاگمراہ نشود‘‘۔
اور یہ جو مشہور ہے ’’شیخ من خس ست اعتقاد من بس ست‘‘ سو اول تو ایسے جاہل فاسق آدمی سے اعتقادباقی رہنا مشکل ہے۔ دوسرے یہ قاعدہ کلیہ نہیں، شاذ ونادر ایسا بھی ہوگیا ہے۔ جو اس فن سے ذرا بھی واقف ہے جانتا ہے کہ حصول مطلب کا طریقہ شیخ کامل کی صحبت وتعلیم ہے ،وبس۔ اور شیخ کامل وہی ہے جو جامع ہو ظاہر وباطن کا۔ تیسرے یہ کہ اس سے بے شرع پیر مراد نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اگر پیر بہت بڑے درجہ کا کامل نہ ہو مگر شرع کے خلاف بھی نہ ہو تو یوں سمجھے کہ اگرچہ ان سے بڑھ کر اور کامل ہوں مگر میرے لئے یہی کافی ہیں اور میرا اعتقاد مجھے مقصود تک پہنچا دے گا۔
فصل: ایک خرابی مانع عورتوں، لڑکوں کو دیکھنا یا ان کے پاس بیٹھنا اٹھنا ہے۔ اس کا بیان بھی اوپر ہوچکا ہے۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ میں اپنے پیر کے ساتھ چلا جاتا تھا ایک حسین لڑکے کو دیکھ کر اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت! کیااﷲ تعالیٰ اس صورت کو عذاب دیں گے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تو نے اس کو دیکھا ہے؟ جلدی اس کا نتیجہ بُھگتو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیس برس بعد میں قرآن بھول گیا۔(قشریہ)
اسی طرح عورتوں سے ملنا جلنا خدائے تعالیٰ سے کوسوں دور پھینکتا ہے۔ باب الاغلاط میں بتفصیل مرقوم ہوچکا ہے۔
فصل: ایک مانع زبان درازی اور دعویٰ کمالات و دعویٰ توحید اور گستاخی و بے ادبی شریعت کے ساتھ، یا حق تعالیٰ کے ساتھ ۔ اس کا بیان بھی اوپر ہوچکا ہے۔