الاسلام الا اسمہ ولایبقی من القرآن الارسمہ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان
(عنقریب آئے گا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ کہ نہ باقی رہے گا اسلام سے مگر نام ہی نام اور نہ باقی رہے گا قرآن سے مگر خطوط ونقوش)
جو حقیقت تصوف کی تھی کہ فنا و بقا کی نسبت حاصل کریں اس کے معنی بھی نہیں جانتے ان رسوم کے مقید ہوگئے۔ ابو العباس دینوریؒ نے اپنے زمانے کا حال فرمایا ہے تو ہمارے زمانے کا کیا ٹھکانہ ہے۔ ان کا ارشاد ہے:
نقضوا ارکان التصوف وھدموا سبلھاوغیروا معانیہا باسامی احدثوھا، سموا الطمع زیادۃ، وسوء الادب اخلاصا، والخروج عن الحق شطحا، والتلذذ بالمذموم طیبۃ، واتباع الھوی ابتلاء، والرجوع الی الدنیا وصلا، وسوء الخلق صولۃ، والبخل جلادۃ، والسؤال عملا ، وبذاء ۃ اللسان ملامۃ وما کان ھذا طریق القوم۔(قشیریہ)
(توڑ دیا لوگوں نے ارکان تصوف کو اور تباہ کر دیا اس کے طریقوں کو اور بدل دیا اس کے معنوں کو ایسے ناموں سے جو خود گھڑے، طمع کا بہتات نام رکھا اور بے ادبی کا اخلاص، اور دین حق سے نکل جانے کا شطح، اور بری چیزوں سے لذت لینے کا خوش طبعی، اور خواہش کی پیروی کا امتحان ، اور دنیا کی طرف لوٹ آنے کا وصل، اور بدخلقی کا رعب، اور بخل کا قوت، اور سوال کا عمل، اور بدزبانی اور پھکڑ گوئی کا ملامت اور نہیں ہے قوم کا یہ طریقہ)
حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب ان رسوم کی نسبت فرماتے ہیں:
’’نسبت صوفیہ غنیمتے ست کبری و رسوم ایشاں ہیچ نمی ارزد‘‘۔
فصل: ایک مانع یہ ہے کہ غلطی سے کسی بے شرع پیر سے بیعت کرلی اب ساری عمر اسی کو نباہتا رہا جب وہ خود واصل نہیں تو اس کو کیسے واصل کرے گا؟ حضرت بندارؒ کا قول ہے:
صحبۃ اہل البدع تورث الاعراض عن الحق (قشیریہ)
(بدعتیوں کی صحبت اﷲ سے منہ موڑ لینے کی باعث ہوتی ہے)
شیخ قوام الدین فرماتے ہیں: