بینددر غلط افتد و داند کہ مگر حضرت حق است قیاس برین حدیث اذا تجلی اﷲ لشیء خضع لہ کل شیء۔ وازیں جنس غلطہا بسیار افتد کہ تجلی روحانی و سمت حدوث دارد وآن را قوت افنا نباشد واز تجلی روحانی غرورو پندار پدید آید و در طلب نقصان پدید آید۔ واز تجلی حق سبحانہ وتعالیٰ ایں جملہ بر خیزد و ہستی بہ نیستی مبدل شود و درطلب بیفزاید و تشنگی زیادہ گردد‘‘۔
اور بعض بزرگوں کے جو اس قسم کے اقوال ہیں ؎
دیگراں را وعدئہ فردا بود
لیک مارا نقد ہم اینجا بود
اس کے معنی شیخ عبد القدوسؒ فرماتے ہیں:
’’معنی او آنست آنچہ آنجا وعدہ برؤیت بود ایں جا بچشم یقین مشاہدہ ایں منقود را محققان مشاہدہ خوانند محض رؤیت دانند‘‘
رفع اشتباہ
بعض بزرگوں کے کلام میں جو تجلّی ذاتی کا لفظ پایا جاتا ہے اس سے دھوکہ نہ کھاویں کیونکہ یہ اصطلاحی لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سالک کی توجہ الی الذات میں اس قدر استغراق ہوجاوے کہ غیر ذات کی طرف اصلاً التفات باقی نہ رہے حتی کہ صفات بھی اس وقت ذہن میں مستحضر نہ رہیں۔ اور ایک معلوم کے حضور سے دوسرے معلومات کی غیبت محل استبعاد نہیں بلکہ بکثرت واقع ہے سو اس کو رؤیت سے کوئی علاقہ نہیں، علم الکتب میں اس کی تفسیر کی تصریح کی ہے۔ علاوہ اس کے خود لغوی معنی کے اعتبار سے بھی تجلی ورؤیت میں فرق ہے، کیونکہ تجلی کے معنی ہیں ظہور کے، سو یہ صفت حق تعالیٰ کی ہے۔ اور رؤیت کے معنی ہیں دیکھنا، سو رؤیت ذات میں یہ صفت عبد کی ہے۔ تجلی کے اثبات سے رؤیت کا اثبات لازم نہیں آتا، کیونکہ اس کا حاصل یہ ہوا کہ ذات کی طرف سے ظہور ہوسکتا ہے مگر عبد کی طرف سے دید و بینش نہیں ہوتی، سو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تجلی کا اثبات فرمایا ہے بقولہ تعالیٰ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہ‘ اور رؤیت کی نفی فرمائی ہے بقولہ