بحر العلوم شرح مثنوی میں فرماتے ہیں:
دریں تجلی حضرت موسیٰ علیہ السلام مشاہدہ حق سبحانہ وتعالیٰ نمودند وبہ سبب مشاہدہ فانی شدند و رؤیت حاصل نہ شد۔
مکتوبات قدوسی میں ہے:
آنچہ اینجا بود یقین گویند کہ حجاب درمیان است وآنچہ آنجا بود عیان نامند کہ ارتفاع حجاب از میان ست(انوار العارفین)
احیاء العلوم میں ہے:
مرئی بالعین والابصار فی الدار الآخرۃ دار القرار ولایری فی الدنیا۔ مختصرا
(دکھلائی دے گا ان آنکھوں اور نگاہوں سے دار آخرت میں جو دار قرار ہے اور نہ دیکھا جائے گا دنیا میں)
اورکتب سلوک میں مقام فنا میں جو مشاہدہ ہونا لکھا ہے وہ رؤیت قلبی ہے جیسا اوپر گذر چکا اور نیز مقام فنا مشابہ خواب کے ہوتا ہے سو خواب میں اﷲ تعالیٰ کا دیکھنا ممکن ہے۔
تنبیہ: بعض اوقات سالک روحانی تجلی کو تجلی ربانی سمجھ کر گمراہ ہوتا ہے اس مقام پر شیخ کامل محقق کی ضرورت ہے۔
’’درمکتوبات چہاردہم حضرت یحیٰی منیری است بداں کہ تجلی عبارت از ظہور ذات و صفات الوہیہ است جل جلالہ۔ وروح را نیز تجلی باشد و بسیار روندگان دریں مقام مغرور شدہ اند و پنداشتند کہ تجلی حق یافتند اگر شیخ صاحب تصرف نباشد ازیں ورطہ خلاصی دشوار بود۔ اکنوں بداں کہ فرق است میان تجلی ربانی وتجلی روحانی ، چوں آئینہ دل از کدورت وجود ماسوی اﷲ صقالت پذیرد و مشرقۂ آفتاب جمال حضرت گردد و جام جہان نمائے ذات وصفات او شود ولیکن نہ ہر کس را ایں سعادت مشاہدہ نماید از میان روندگان صاحب دولتے باشد کہ چوں آئینہ دل از صفات بشریت صاف کند بعضے صفات روحانی بر دل وے تجلی کند پس گاہ بود کہ ذات روح کہ خلیفۂ حق است در تجلی آیدو بخلافت خود دعوی انا الحق کردن گیرد وگاہ بود کہ جملہ موجودات را پیش تحت خلافت روح در سجود